Return   Facebook

The Universal House of Justice

Ridván 2021

To the Bahá’ís of the World

Dearly loved Friends,

امر کی تاریخ کے یادگار باب کے اختتامی کلمات اب تحریر ہو گئے ہیں اور صفحہ پلٹ گیا ہے۔ یہ رضوان ایک پانچ سالہ منصوبہ کے غیر معمولی سال اور منصوبوں کے اس سلسلہ کا جو ۱۹۹۶ء میں شروع ہوا ،کے اختتام کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ منصوبوں کا ایک نیا سلسلہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بارہ ماہ کااہم عرصہ کن وعدوں کی نشاندہی کرتا ہے جو اس نو سالہ جدو جہد کا آغاز ہوں گے جو اگلے رضوان سے شروع ہوگا۔ ہمیں اپنے سامنے ایک ایسا جامعہ نظر آتا ہے جس نے بڑی سرعت سے قوت حاصل کی ہے اور تیزی کے ساتھ آگے کی طرف بڑھنے کےلئے تیار ہے۔ لیکن اس بارے میں کوئی مغالطہ نہیں رہنا چاہیےکہ اس نقطہ تک پہنچنے کے لئے کتنی جدو جہد کی ضرورت تھی اور وہ بصیرتیں کتنی مشکلات سے حاصل کی جا سکیں جو اس راہ کو طے کرنے کے دوران سیکھی گئیں:جو سبق سیکھے گئے وہ جامعہ کے مستقبل کی صورت گری کریں گے اور یہ بیان کہ ان کو کیسے سکھایاگیا اس پر روشنی ڈالے گا جو آگے آنے والا ہے۔

۱۹۹۶ء تک آنے والے عشرے خود اپنی ترقیات اور بصیرتوں سے مالا مال ہیں اور اُنہوں نے کوئی شک و شبہ باقی نہیں چھوڑا کہ متعدد معاشروں کی بڑی تعداد میں لوگ تیار ملیں گے جو امر مقدس کے عَلم کے نیچے داخل ہونے کے لئے تیار ہونگے۔ تاہم جس طرح بڑی تعداد میں لوگوں کی شمولیت کے واقعات حوصلہ افزا تھے وہ ترقی کو برقرار رہنے والے اپنے عمل کو ،جو متنوع صورت ہائے حالات میں پیدا کئے جا سکتے تھے ، کی برابری نہ کرسکے۔ جامعہ کو گہرے سوالات درپیش تھے جن کا اس کو، اس وقت صحیح جواب دینے کا کوئی تجربہ حاصل نہ تھا۔ کس طرح اس کی توسیع کا مقصد رکھنے والی کوششیں تحکیم کے عمل کے ساتھ ساتھ چل سکتی تھیں اور پائیدار توسیع کے طویل عرصےسے جاری اور بظاہر حل نہ ہو سکنے والی للکاروں کا جواب دے سکتی؟ کس طرح ایسے افراد، ادارے اور جامعات کھڑے کئے جا سکتے جو اس قابل ہو ں کہ حضرت بہاء اللہ کی تعلیمات کو برسر عمل لاسکیں۔ اور کس طرح وہ لوگ جن کو تعلیمات میں کشش محسوس ہو وہ عالمی روحانی امور کے فعال کارکن بن سکیں؟

اور اس طرح چوتھائی صدی پہلے ایسا جامعہ بہائی جس کے ہر اول دستہ میں ابھی تین ایادی امراللہ کا ساتھ تھا، نے چار سالہ منصوبے کا آغاز کیاجو ان منصوبوں سے بالکل الگ اور مختلف تھا جو اس سے پہلے گزرے تھے اور اس کی توجہ صرف ایک مقصدپر مرکوز تھی کہ فوج در فوج داخلے میں نمایاں پیش رفت لائی جائے۔ یہی مقصد ان منصوبوں کے سلسلےکی بھی توصیف تھی جو ان کے بعد زیر عمل آتے رہے۔ جامعہ پہلے ہی یہ سمجھنے لگا تھا کہ یہ عمل صرف اسی قدر نہیں ہے کہ امر کے اندر بڑے بڑے گروہ داخل ہوتے رہیں اور نہ یہ عمل اچانک خود بخود ابھرے گا،اس میںبامقصد، منظم، تیز رفتار توسیع اور تحکیم مضمرہے۔ اس کام کے لئے بہت سارے باخبر نفوس کی شرکت درکار ہے اور ۱۹۹۶ء میں عالم بہائی کو پکارا گیا کہ وہ اس وسیع تر تعلیمی للکار کو ہاتھ میں لیں جس کی اس میں ضرورت ہوگی۔ جامعہ کو دعوت دی گئی کہ وہ ٹریننگ انسٹیٹیوٹس کا ایک نیٹ ورک شروع کریں جس کی توجہ بڑھتی ہوئی تعداد میں ایسے افراد تیار کرنے میں مرکوز ہو جن میں بڑھوتری کے عمل کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری صلاحیتیں موجود ہوں۔

تبلیغ کے شعبہ میں اپنے سابقہ فتوحات کے باوجود احباب نے اس آگاہی کے ساتھ یہ کام شروع کیاکہ واضح طور پر انہیں ان صلاحیتوں کو حاصل کرنے کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہےاور سب سے ضروری اسے کیسے حاصل کیا جائے۔ کئی طرح سے جامعہ یہ سب کرنے سے سیکھے گا ، انہیں وہ ایک بار خامیوں سے پاک کرکے مختلف حالات میں کافی عرصہ تک ان پر عمل کرکے ان میں عمدگی پیدا کرے گا اور جو سبق یہ سیکھے گاتو انہیں بالآخر تعلیمی مواد میں شامل کر لیا جائے گا۔ یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ چند سرگرمیاں آبادی کی روحانی ضروریات کا قدرتی جواب ہیں۔ اسٹڈی سرکلز، بچوں کی کلاسیں، دعائیہ جلسات اور بعد میں شروع ہونے والے جونیئر یوتھ گروپس اس بارے میں مرکزی اہمیت کے حامل سمجھے گئےاور جب انہیں متعلقہ سرگرمیوں کے ساتھ جوڑا گیاتو جو تحرکات قائم ہوئے وہ سماجی زندگی کے متحرک نمونوں کو پیداکر سکے۔ اور جیسے جیسے ان بنیادی سرگرمیوں میں شرکت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو بنیادی مقصد میں ایک نیا پہلو کا اضافہ ہوگیا۔ وہ ایسے دروازوں کا کام کرنے لگے جن میں سے نوجوان ،بالغ اور وسیع تر معاشرہ کے پورے خاندان گزر کر حضرت بہاء اللہ کے ظہورسے آگاہ اور مربوط ہوئے۔ یہ بھی واضح ہو رہا تھا کہ کس طرح سماج سازی کے کاموں کی حکمت عملی ‘‘ کلسٹر’’ کی سطح پر عملاً کارآمد تھی:یعنی ایک قابل نظم علاقہ جس کے نمایاں معاشرتی اور معاشی نقوش ہوتے ہیں۔ کلسٹر کی سطح کے سادہ منصوبے تیارکرنے کی صلاحیت پیدا ہونا شروع ہوئی اور ایسے منصوبوں سے امر کی بڑھوتری کے منصوبے ابھرنے لگے جو تین مہینوں کی فعالیتوں کے دورانیئے بن گئے۔ایک اہم نقطہ ابتداء سے ہی واضح ہوگیا کہ جیسے جیسے افراد کورسوں کے سلسلے سے گزرتے گئے اس نے کلسٹر کے تسلسل(continuum) میں حرکت کو تقویت دی اور اسے دوام بخشا۔ اس امدادی تعلق سے احباب کو ہر جگہ مدد ملی کہ وہ اپنے اردگرد کے علاقہ میںبڑھوتری کے تحرکات کا اندازہ کرسکیں اور اضافی قوت کی طرف راستہ متعین کر سکیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا یہ دیکھنا فائدےمند نظر آیا کہ کلسٹر میں دونوں، تین تعلیمی لوازمات بچوں، جونیئر یوتھ ، جوان اور بالغوں کے سیاق و سباق میں کیا کچھ ہورہا ہےاور نیز فعالیتوں کے دورانیوں کی نظر سے بھی جو بڑھوتری کی تال کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ پچیس سالہ جد و جہد کے ایک عرصہ کے بعد بڑھوتری کے اس عمل کے انتہائی قابل تشخیس خدوخال جنہیں ہم آج دیکھتے ہیں وہ پوری طرح سے قائم ہو رہے تھے۔

جیسے جیسے احباب کی کوششوں میں شدت آتی گئی تو بڑھوتری کے عمل سے عالمگیر مناسبت کے حامل اصول، تصورات اور حکمت عملیاں بڑھوتری کے پراسس کے لئے ایک دائرہ عمل میں ظاہر ہونے لگیں جو اپنے اندر نئے عناصر کو جگہ دے سکتا تھا۔ یہ دائرہ عمل بے پناہ قوت کی فراہمی کے لئے بنیادی ثابت ہوا۔ اس نے احباب کو مدد دی ،جسے تجربے نے دکھایاکہ وہ اپنی قوتوں کو ایسے راستوں پر لگائیں جو صحت مند جامعات کی بڑھوتری کے لئے سازگار تھے ۔لیکن دائرہ عمل کوئی فارمولانہیں ہوتا۔ جب کسی کلسٹر، بستی یا محض ایک محلہ کی حقیقت کا اندازہ کرتے ہوئے ہم دائرہ عمل کے مختلف عناصر کا جائزہ لیتے ہیں توسرگرمی کا ایک نمونہ وضع کیا جا سکتا ہے جو اس سے استفادہ کرتا تھا جو باقی دنیا سیکھ رہی ہوتی ہے اور ایسا کرتے ہوئے بھی وہ اس مقام کی خصوصیات کا جواب ہی ہوتا تھا۔ ایک طرف تقاضوں کی سختی اور دوسری طرف ذاتی ترجیحات کو بے حد آزادی دینے کے درمیان دوفرعتوں نے ان متنوع ذرائع کا نازک فہم مہیا کردیا جس کی مدد سے افراد ایک ایسے سلسلہ عمل کی مدد کرسکیں جو اپنے باطن میں ہم آہنگ ہے اور مسلسل تجربہ ہوتے جانے کے ساتھ ساتھ عمدگی حاصل کرتا جا رہا ہے۔ اس پیش رفت کے بارے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے جس کی نمائندگی اس دائرہ عمل کے نمودار ہونے سے ہوتی ہے: ہم آہنگی قائم کرنے کے مطالب اور پورے عالم بہائی کی جدو جہد کو متحد و مربوط کرنا اور اس کی آگے کی طرف پیش رفت کو مزید آگے کی طرف بڑھائے جانا عظیم نتائج کا حامل تھا۔

جب ایک کے بعد دوسرا منصوبہ آیا اور جامعہ کی تشکیل میں مصروفیت کی بنیادیں وسیع ہوتی گئیں، ثقافت کی سطح پر ترقیات زیادہ نمایاں ہو گئیں۔ مثال کے طور پر نوجوان نسل کو تعلیم دینے کو زیادہ وسیع پیمانے پر پذیرائی ملنے لگی جس طرح کہ بالخصوص اس غیرمعمولی قوت کو جس کی نمائندگی جونیئر یوتھ کرتے تھے۔ ایک مشترکہ راستہ پرنفوس ایک دوسرے کی ہمراہی اور مدد ، مسلسل باہمی حمایت کے دائرے کو وسیع کرنا، اس خدمت کے لئے صلاحیت کی ترقی کا نمونہ بن گئے جس کی طرف تمام کوششیں متوجہ تھیں۔جیسے جیسے روحانی استعداد کو جگانے اور بڑھانے کے لئے بامعنی گفتگووں کی طاقت کے بارے میں آگاہی بڑھتی گئی تو احباب اور ان کے دوستوں کے درمیان باہمی عمل میں تبدیلی آنے لگی۔ اور نمایاں طور پر جامعہ بہائی نے ایک بیرون نظری رویے کو اپنایا۔کوئی بھی روح جو امراللہ کے تصور کا مشتاق ہوتا ایک فعال شریک بن سکتا تھا ۔ یہاں تک کہ تعلیمی سرگرمیوں، دعائیہ جلسات اور سماج سازی کے دیگر عناصر کے کاموں کو بڑھانے والا اور سہولت کار بن سکتا تھا، اور انہی نفوس میں سے بہت سے حضرت بہااللہ پر ایمان لانے کا اعلان کرتے۔ اس طرح فوج در فوج داخلے کے پراسس کا تصور ظاہر ہونے لگا۔جو تصورات اور نظریات پر انحصار کرنے کے بجائے اس عملی تجربہ پر زیادہ انحصار کرتا تھا کہ کس طرح بڑی تعداد میں لوگ امر بہائی کوتلاش کرسکیں، اس سے آگاہ ہو سکیں، اس کے مقاصد کے ساتھ شناخت قائم کرسکیں، اس کی سرگرمیوںاور غورو فکر اور مشورت میں شامل ہو سکیں اور متعدد صورتوں میں اسے قبول کرلیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جیسے جیسے ایک علاقے کے بعد دوسرے علاقے میں انسٹیٹیوٹ پراسس طاقت پاتا گیا تو ان افراد کی تعداد جو منصوبےکے امور میں حصہ لے رہے تھے اس میں بڑی کثرت سے اضافہ ہونے لگااور ان میں بھی جو حال ہی میں امراللہ سے متعارف ہوئے تھے۔ لیکن اس کو اس غرض سےتحرک نہیں دی جارہی تھی کہ تعداد میں اضافہ ہو۔ ایک ہی وقت میں روپزیر ہونے والا انفرادی اور اجتماعی کایاپلٹ کا تصور، جو کلام الٰہی کے مطالعے کی بنیاد پر اور ہر فرد کے گہرے روحانی عمل کے مرکزی کردار بننے کی صلاحیت کی تشخیص نے مشترکہ ہدف کے احساس کو قائم کیا۔

اس پچیس سالہ عرصہ کا ایک نمایاں اور القا پیدا کرنے والا پہلو وہ خدمت تھی جو بہائی جوانان سر انجام دے رہے تھے جنہوں نے ایمان اور دلیری کے ساتھ جامعہ کی جدو جہد کی پیش قدمی میں جائز مقام حاصل کر لیا ہے۔امر کے مبلغین اور نوجوانوں کے اساتذہ کی حیثیت سے، موبائل ٹیوٹرز اور مہاجرین کی شکل میں، کلسٹر کو آرڈینیٹر کے طور پر، اور ذیلی بہائی اداروں کے اعضاء کی صورت میں جوانان پانچوں براعظموں میں اپنے جامعات کی خدمت کے لئے عقیدت اور قربانی کے جذبہ سے اٹھے ہیں۔ وہ بلوغت جو اُنہوں نے وظائف کی ادائیگی میں دکھائی جس پر ملکوتی منصوبہ کی پیش رفت کا انحصار تھا وہ ان کی روحانی طاقت اور انسانیت کے مستقبل کے محفوظ بنانے کے لئے اپنے عزم و ارادہ کا اظہار تھا۔ روزافزوں انداز میں اس نمایاں ہونے والی بلوغت کو تسلیم کرتے ہوئے ہم نے فیصلہ کیا ہے اس رضوان کے فوراً بعد جہاں مومن کی محفل میں خدمات سر انجام دینے کی عمراکیس سال ہی رہے گی وہ عمر جس میں ایک مومن بہائی انتخابات میں ووٹ ڈال سکتا ہے اسے کم کرکے اٹھارہ سال کر دیا ہے۔ ہمیں اس میں کوئی شک نہیں کہ بہائی جوانان ہر جگہ جب اس عمرتک پہنچیں گے تو اپنی صلاحیت پر ہمارے اعتماد کا اظہار کریں گے اور وہ ‘‘مقدس وظیفے’’ کو ‘‘باضمیر انداز’’ اور پوری قابلیت سے ادا کریں گے جس کے لئے ہر منتخب کرنے والے بہائی سے تقاضا کیا جاتا ہے۔

٭٭٭٭

ہم اس بات سے واقف ہیںکہ قدرتی طور پر جامعات کی حقیقت میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے۔ مختلف ملّی سماجوں اور ان سماجوں میں مختلف جگہوں نے منصوبوں کے سلسلے کو ترقی کے مختلف نقاط پر شروع کیا، اس وقت سے اُنہوں نے مختلف رفتاروں سے ترقی کی ہے اور ترقی کے مختلف درجات حاصل کئے ہیں۔ یہ بات بذات خود کوئی نئی بات نہیں ہے۔ صورت ہمیشہ یہی رہی ہے کہ مختلف مقامات پر مختلف حالات ہوتے ہیں اور اسی طرح ہر جگہ قبولیت کے درجات بھی مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن ہم ایک ابھرتی ہوئی لہر کو دیکھ سکتے ہیں جس کے مطابق اکثر جامعات کی صلاحیت، اعتماد اورحاصل شدہ تجربہ بڑھتا ہے، اسے قریب اور دور کے ساتھی جامعات کی کامیابی سے بلندی بھی ملتی ہے۔ ایک مثال کے طور پر کہ جب وہ نفوس جو ۱۹۹۶ء میں ایک نئی بستی کو کھولنے کے لئے اٹھے تو ان میں جرأت، ایمان اور عقیدت کی کوئی کمی نہ تھی لیکن آج ان کی جگہ کام کرنے والے ہر جگہ ان خوبیوں اور صلاحیتوں کے علاوہ ان علوم، بصیرتوں اور صلاحیتوں سے بھی بہرہ ور ہیں جو پورے عالم بہائی کی پچیس سالہ جدو جہد سے جمع کی گئی ہیں کہ توسیع اور تحکیم کے امور کو کس طرح منظم اور عمدہ کیا جائے۔

کسی جامعہ کے ابتدائی نقطہ سے قطع نظراس نے بڑھوتری کے عمل کو اس وقت پیش رفت دی جب اس نے ایمان، استقلال اور عزم و ارادہ کو سیکھنے کے لئے تیار رہنے کے ساتھ منسلک کیا۔درحقیقت، ان منصوبوں کے سلسلے کی انمول میراث، اس بات کی پھیلتی ہوئی شناخت ہے کہ پیش رفت کی طرف کوئی بھی کوشش سیکھنے کے رویے کی طرف متوجہ ہو کر حاصل ہوگی اس نقطہ کی سادگی اس کی اہمیت کو نہ چھپا لے۔ ہمیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر کلسٹر وقت گزرنے کے ساتھ ترقی کے تسلسل میں پیشرفت کرے گا؛ وہ جامعات جنہوں نے بہت تیزی سے پیش رفت حاصل کی ہے، ان جامعات کے مقابلے میں جن کے حالات اور امکانات ان کے برابر تھے اُنہوں نے ایسی اہلیت دکھائی ہے جو خیالات میں وحدت پیدا کرے اور جو مؤثر عمل کے بارے میں سیکھے اور اُنہوں نے ایسا ،عمل میں کوئی جھجھک لائے بغیر کیا۔

سیکھنے کے عزم و ارادہ کا یہ مطلب بھی ہے کہ غلطیوں کے سرزد ہونے کے لئے بھی تیار رہا جائے۔ البتہ بعض اوقات یہ غلطیاں تکلیف کا سبب بنیںہیں۔ اس میں حیرت کی بات نہیں کہ نئے طریقے اور نئے انداز میں تجربے کی کمی کی وجہ سے غیر ماہرانہ انداز میں اختیار کئے گئے اور مواقع پر حاصل کردہ ایک قسم کی تازہ صلاحیت اس لئے فراموش کر دی گئی کہ جامعہ ایک اور طریقہ کار کی نشوونما میںمصروف تھا۔ نیک ارادے رکھنے میں اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ غلط اقدامات نہیں سرزد ہوں گے اور ان کو درگزر کرنے کے لئے انکساری اور انقطاع کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب ایک جامعہ یہ عزم کر لیتا ہے کہ وہ تحمل سے کام لے گا اور غلطیوں سے سیکھے گا جو قدرتی طور پر سرزد ہوں گی تو ترقی تک رسائی ہاتھ میں رہتی ہے۔

منصوبوں کے سلسلےکے وسط میں جامعہ کے معاشرہ کی زندگی میں شمولیت زیادہ براہ راست توجہ کا باعث بن گئی۔احباب کو اس بارے میں تشویق کی گئی کہ سماجی اقدامات اور معاشرے میں ہونے والے مکالمات کو دو مجموعی شعبوں کے طور پر دیکھا جائے۔ یقینا یہ دونوں توسیع اور تحکیم کے امور کے متبادل ہر گز نہ تھے، وہ تو انہی میں شامل اور مضمر تھے۔جتنے زیادہ انسانی وسائل کوئی جامعہ تیار کرسکتا، اتنی ہی زیادہ للکاروں کا سامنا کرنے کے لئے حضرت بہاءاللہ کے ظہور میں مضمر حکمت کو استعمال کرنے کی صلاحیت بڑھتی، یعنی ان کی تعلیمات کو حقیقت میں ڈھالنا۔ اس عرصہ میں نوع انسانی کی مشکلات کے شکار مسائل یہ ثابت کرتے تھے کہ ان کو طبیب ملکوتی کے عطا کردہ علاج کی کتنی اشد ضرورت ہے۔ اس پورے معاملہ کا ایک مطلب یہ تھا کہ مذہب کا ایسا تصور سامنے آئے جو ان تصورات سے بہت مختلف ہو جن کا اس وقت پوری دنیا میں غلبہ ہے۔ ایک ایسا تصور جو مذہب کو ایک ایسی مؤثر قوت تسلیم کرتا ہے جو ہمیشہ ترقی پاتی تہذیب و تمدن کو آگے دھکیل رہی ہے۔ یہ سمجھ لیا گیا کہ ایسا تمدن خود بخود اپنے آپ نمودار نہیں ہوگا۔ یہ حضرت بہاء اللہ کے پیروکاروں کا مشن ہے کہ وہ اس کو نمودار کرنے کے لئے جدو جہد کریں۔ ایسا مشن یہ تقاضا کرتا تھا کہ سکھلائی کے اسی سلسلہ عمل کو سماجی اقدامات کے امور پر اور عمومی مکالمات میں شرکت پر لاگو کیا جائے۔

پچھلے پچیس سالوں کے سیاق و سباق میں جائزہ لیا جائے تو سماجی اقدامات اٹھانے کی صلاحیت میں نمایاں ترقی ہوئی ہے اور اس نے سرگرمیوں کی غیر معمولی کثرت کی طرف رہنمائی کی ہے۔ ۱۹۹۶ء سے تقابل کیا جائے جب ۲۵۰ معاشرتی اور معاشی ترقی کے منصوبے سال بہ سال کے طریقے سے برقرار رکھے جا رہے تھے۔ اب ان کی تعداد ۱۵۰۰ ہو گئی ہے اور بہائیوں کی کاوشوں سے چلائی جانے والی تنظیموں کی تعدادچار گناہ بڑھ کر ۱۶۰ ہو گئی ہے۔مختصر دورانیہ کے ۰۰۰،۷۰ سے زیادہ نچلی سطح کے معاشرتی اقدامات ہر سال زیر عمل آرہے ہیں۔ یہ اضافہ پچاس گنا تک ہو گیا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ان تمام مساعی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے گا جو بہائی انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن کی عقیدت مندانہ امداد اور جوش و جذبہ سے ہو رہا ہے۔ اس دوران معاشرےمیں جاری مکالمات میں بہائی شراکت میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ ان بے شمار مواقع کے علاوہ جہاں احباب نے ان گفتگووںمیں بہائی سیاق و سباق پیش کیں جو کسی کام کے دوران یا ذاتی حوالے سے سامنے آئیں ہیں، زیادہ رسمی شرکت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ہمارے سامنے نہ صرف بہائی انٹرنیشنل کمیونٹی کی وسیع ہوتی ہوئی کوشش اور بڑھتی ہو ئی عمدہ امداد، جس نے اس عرصہ میں افریقہ، ایشیا اور یورپ میں اپنے دفاتر قائم کئے، بلکہ وسیع اور مستحکم ہوتے ہوئے ملّی ایکسٹرنل افیرز کے دفتر کے کام ہیں جن کی بنیادی توجہ اس شعبہ کی طرف تھی، اس کے ساتھ مخصوص شعبوں میں افراد مومنین نے بھی قابل توجہ اور بصیرت آمیز اضافے کئے۔ اس سب کچھ سے اس کی کسی قدر وضاحت ہوتی ہے جو عزت و احترام، ستائش اور تعریف و توصیف فکر و تصور کے رہنما اور معاشرہ کی ہر سطح کی نمایاں شخصیات نے بار بار امر کے پیروکاروں کے اور ان کی سرگرمیوں کے لئے پیش کی ہیں۔

پچیس سال کے پورے عرصے کا جائزہ لیتے ہوئے ہم ان متعدد اقسام کی ترقی سے مرعوب ہو کر رہ جاتے ہیں جو عالم بہائی نے ایک ساتھ حاصل کی ہیں۔ اس جامعہ کی حیات دانش نے فروغ پایا ہے جس کا اظہار نہ صرف اس کی جدو جہد کے تمام شعبوں میں پیش رفت سے ہوتا ہے جس کا تذکرہ پہلے ہو چکا ہے بلکہ اس اعلیٰ درجے کے لٹریچر سے بھی ہوتا ہے جو بہائی مصنفین نے شائع کیا ہے۔ ایسے مقامات کے ترقی دینے سے بھی ہوتا ہے جو چند شعبوں میں تحقیق و تفتیش تعلیمات کی روشنی میں کرنے کے لئے استعمال میں آتے ہیں۔انسٹیٹیوٹ آف گلوبل پراسپیریٹی کے پیش کردہ گریجویٹ اور انڈر گریجویٹ جو امر کے اداروں کے تعاون سے پیش کئے جاتے ہیں جن سے ۱۰۰ سے کافی زیادہ ممالک کے بہائی جوانان استفادہ کرتے ہیں، کے مرتب کردہ اثر سے بھی عیاں ہوتا ہے۔ مشارق الاذکار کی تعمیر میں نمایاں تیزی آئی ہے۔ سانتیاگو چلی میں آخری براعظمی مشرق الاذکار تعمیر ہو گیا ہے اور دوملّی اور پانچ مقامی مشارق الاذکار کی تعمیر کے منصوبے شروع ہو گئے ہیں۔ باتمبانگ کمبوڈیا اور نورٹا ڈیل کاکاو کولمبیا کے دروازے پہلے ہی کھل چکے ہیں۔ بہائی معابد خواہ نئے قائم ہوئے ہوں یا کافی مدت سے ہوں روزافزوں انداز میں جامعہ کی زندگی کے دلوں میں جگہ پاتے جا رہے ہیں۔ مومنین کی صفوں اور آبادیوں کی پیش کردہ مالی امداد جو احباء الٰہی کی شروع کردہ متنوع کوششوں کے لئے ہوتی ہے اس میں رکاوٹ نہیں آئی۔ دیکھا گیا ہے کہ اجتماعی روحانی قوت کے ایک اقدام کے طور پر وہ سخاوت اور قربانی جس کے ساتھ یہ پیش کی جاتی ہے بعض اوقات کافی بڑی معاشی ہلچل کے باوجود فنڈ کی نازک فراہمی برقرار رہی۔ نہیں، بلکہ اس میں تقویت پیدا ہوئی اور یہ بڑی نمایاں بات ہے۔ بہائی انتظامیہ کی فرمانروائی میں محافل ملّی کی اپنے جامعات کے امور کا نظم چلانے کی صلاحیت میں ان کی بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کے باوجود اضافہ ہوا ہے۔ اُنہوں نے بالخصوص مشاورین کے ساتھ تعاون اور ہمکاری میں نئی بلندیاں پیدا ہونے سے بہت فائدہ اٹھایا ہےجو پوری دنیا میں نچلے درجے کے اداروں سے حاصل ہونے والی بصیرتوں کے جمع کرنے اور ان کے منظم کرنے میں آلۂ کار ثابت ہوئے ہیں اور وہ یہ یقینی بنا رہے ہیں کہ انہیں وسیع پیمانے پر تقسیم کیا جائے۔ یہ وہ زمانہ بھی تھا جس میں ریجنل بہائی کونسل ایک مکمل بااختیار امری ادارےکے طور پر نمودار ہوئی۔ اور اب تک ۲۳۰ علاقوں میں ان کونسلز اور ٹریننگ انسٹیٹیوٹس نے جو ان کے زیر نگرانی ہوتے ہیں ترقی کے سلسلۂ عمل میں خود کو ناگزیر ثابت کردیا ہے۔ حقوق اللہ کے چیف ٹرسٹی جناب علی محمد ورقا کے وظائف کو مستقبل میں جاری رکھنے کی خاطر حقوق اللہ کا انٹرنیشنل بورڈ آف ٹرسٹیز ۲۰۰۵ء میں تشکیل دیا گیا۔ آج یہ بورڈ کم از کم ۳۳ نیشنل اور ریجنل بورڈ آف ٹرسٹیز کی کوششوں میں تعاون اور ہمکاری کر رہا ہے جو اپنے مقام پر ایک ہزار سے زیادہ نمائندوں کے کام میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ وہ مختلف ترقیات جو اسی عرصہ میں بہائی مرکز جہانی میں ہوئیں بے شمار ہیں: حضرت باب کے روضہ مبارک سے منسلک چبوترے اور کوہ کرمل کے سلسلہ عمارات میں دو عمارتوں کا اضافہ اور حضرت عبد البہاء کے روضہ مبارک کی تعمیر کی ابتداء اور یہ تذکرہ کرنے کی حاجت نہیں کہ امر کے مقامات مقدسہ کی تقویت اور تحفظ کے لئے متعدد منصوبوں پر عملدرآمد بھی ہوا۔ روضہ مبارک حضرت بہاء اللہ اور روضہ مبارک حضرت باب کو عالمی ورثہ کے مقامات کے طور پر تسلیم کیا گیا جو نوع بشر کے لئے انتہائی اہمیت کے مقامات ہیں۔ لوگ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں گروہوں کی صورت میں آتے رہے، یہ تعداد کچھ سالوں میں پندرہ لاکھ تک پہنچ گئی۔ اور مرکز جہانی نے ایک ہی وقت میں سینکڑوں زائرین کا خیرمقدم کیا۔ بعض سالوں میں ان کی تعداد پانچ ہزار تک پہنچ گئی اور اسی تعداد کے برابر ان بہائیوں کا شمار بھی تھا جو مقدس مقامات کا دیدار کرنے آئے۔ ہم اس بات پر بہت ہی مسرور ہیں کہ تعدادتو بڑھ ہی رہی ہے لیکن ان ملتوں اور قوموں کی نمائندگی کی تعداد میں بھی درجنوں کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے جنہیں شرف زیارت حاصل ہوتا ہے۔ مقدس کتب و الواح کے تراجم، اشاعت اور تقسیم میں بھی بہت اضافہ ہو رہا ہے اور سرعت آ رہی ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ بہائی ریفرنس لائبریری کی کتابوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ Bahai.orgسے منسلکہ ویب سائٹس کے بڑھتے گروہ میں ایک نمایاں عضو کا اضافہ ہوا ہے۔ جو دس زبانوں میں دستیاب ہے۔ متنوع دفاتر اور ذیلی ادارے قائم کئے ہیں جو کہ مرکز جہانی اور دوسرے مقامات پر ہیں اور ان کے ذمے ہے کہ وہ سیکھنے کےپراسس کی حمایت کریں جس کی تہہ کشائی پوری بہائی دنیا میںمختلف کوششوں سے ہو رہی ہے۔ہمارے روحانی بہنو اور بھائیو یہ سارا بیان، کہانی کا مختصر حصہ ہے جو ہم بیان کرسکے ہیں جو تمہاری اس ہستی سے عقیدت جو مظلوم جہان تھا سامنے لے آئی ہے۔ ہم صرف ان سخت مؤثر کلمات کی گونج بلند کر سکتے ہیں جو ایک مرتبہ ہمارے محبوب سرکار آقا نے جذبات کی شدت میں آکر بیان کئے تھے: ‘‘یا بہاءاللہ! تو نے یہ کیا کمال کر دکھایا ہے؟‘‘

٭٭٭٭

ایک چوتھائی صدی کے مرکزی منظر سے اب ہم اپنی توجہ کا مرکز حالیہ گزرنے والے پانچ سالہ منصوبے کی طرف کرتے ہیں۔ یہ ایسا منصوبہ تھا جو گزشتہ تمام منصوبوں سے کئی مختلف طریقوں سے الگ تھا۔ اس منصوبےمیں ہم نے دنیا کے بہائیوں پر زور دیا تھا کہ وہ اس سب سے جو اُنہوں نے گزشتہ بیس سالوں میں سیکھا ہے استفادہ کریں اور اس پر مکمل عمل در آمد کریں۔ ہم اس بات پر مسرور ہیں کہ اس بارے میں ہماری امیدیں پوری کرنے سے بھی کچھ زیادہ ہی کیا گیا لیکن جہاں ہم قدرتی طور پر جمال مبارک کے پیروکاروں سے عظیم چیزوں کی توقع کریں گے جو کچھ ان دلیرانہ قوتوں سے سر انجام دیا گیا اس کی خصوصیت حقیقتاً حیرت انگیز تھی۔ وہ کامیابیوں کاعروج تھاجو پچیس سالوں میں حاصل کی گئیں ۔ یہ منصوبہ اس لئے بھی یادگار تھا کہ اس کو دو مقدس دو صد سالہ تقریبات نے تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ جن میں سے ہر ایک نے دنیا بھر میں محلّی جامعات کو درخشاں کر دیا۔ مومنین کے جامعہ نے ایسے پیمانے پر جو کبھی پہلے دیکھنے میں نہ آیا اور نسبتاً سہولت کے ساتھ معاشرہ کے تمام طبقات کے لوگوں کو مظہر ظہور الٰہی کی زندگی کو اعزازپیش کرنے میں شامل اورمصروف کیا۔ یہ کسی وسیع تر چیز کا طاقتور اشارہ تھا: یہ وہ صلاحیت تھی کہ کثیر روحانی قوتوں کے اظہار کو امر کی ترقی کی راہ پر لگا دیں۔ اس کا جواب اس قدر نمایاں تھا کہ متعدد مقامات پر امر مقدس کو قومی سطح پر لاعلمی سے باہر نکال لایا گیا۔ ایسے مقامات اور حالات میں جہاں اس کی توقع نہ تھی، شاید اس کی جستجو ہی نہ کی جاتی تھی امر کی مقبولیت نمایاں نظر آنے لگی۔ ہزاروں ہزار لوگ اس عقید ت مندانہ روح سے وجد میں آگئے جو اس زمانے میں ہر جگہ بہائی جامعات کی خصوصیت ہے۔ ایک بہائی یوم مقدس منانے سے کیا ممکن بنایا جا سکتا ہے اس کے تصور کو بے حد و حساب وسعت مل گئی۔

اس منصوبے کی کامیابیوں اور کامرانیوں نے سادہ طور پر تعداد کے لحاظ سے بھی بہت جلد ۱۹۹۶ء سے لے کر اس سے پہلے کے تمام منصوبوں کی کامیابیوں کو گرہن لگادی۔ اس منصوبے کی ابتداءمیںصلاحیت صرف اس قدر تھی کہ دیئے گئے وقت میں، ایک لاکھ سے کچھ زیادہ بنیادی سرگرمیوں کو جاری رکھا جا سکے۔ یہ صلاحیت بیس سالوں کی مشترکہ کوشش کا ثمر اور حاصل تھی۔ اب تین لاکھ بنیادی سرگرمیاں جاری رکھی جا رہی ہیں۔ ان میں شرکت کرنے والوں کی تعداد دو ملین سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ یہ اضافہ تین گنا کے قریب جا پہنچتا ہے۔ ۳۲۹ ملّی ا ور علاقائی ٹریننگ انسٹیٹیوٹس برسر عمل ہیں اور ان کی صلاحیت اس حقیقت سے ظاہر ہوتی ہے کہ ایک ملین لوگوں کی تین چوتھائی کو اس قابل بنا دیا گیا ہے کہ وہ سلسلۂ وار کتابوں کی ایک کتاب کو مکمل کر سکیں۔ مجموعی طور پر افراد کے کئے گئے کورسوں کی تعداد بھی اب دو ملین تک پہنچ گئی ہے۔ یہ اضافہ پانچ سالوں میں ایک تہائی سے کافی زیادہ ہے۔

اضافی شدت جس کے ساتھ پوری دنیا میں بڑھوتری کے پروگرام چلائے جا رہے ہیں اپنی متاثر کرنے والی کہانی بیان کرتے ہیں۔ اس پانچ سالہ عرصے میں ہم نے یہ تقاضا کیا تھا کہ ان پانچ ہزار کلسٹروں میں جہاں بڑھوتری کے پروگرام چلائے جا رہے ہیں ان کی رفتار میںتیزی لائی جائے۔ یہ عائد کردہ فریضہ پوری دنیا کے اندر سنجیدہ کوششوں کے لئے ایک زور دلانے والی چیز بن گیا۔ اس کے نتیجے میں زیادہ زور دار بڑھوتری کے پروگراموں کی تعداد دو گنا سے بھی بڑھ گئی اور اب تقریباً یہ چار ہزار ہے۔ صحت کے عالمی بحران کے دوران نئے دیہاتوں اور محلوں کو امر اللہ کے لئے کھولنے میں یا ان سرگرمیوں کے پھیلانے میں جو ابھی اپنی ابتدائی سطحوں پر تھیں جب اس وبا کی ابتداءہوئی تھی اس اجتماعی تعداد میں اضافہ کو بھی روک دیا کہ منصوبے کے اختتامی سالوں میں انہیں پورا کر دیا جائے۔ تاہم اس سے بھی کچھ زیادہ بتانے کو باقی ہے۔ اس نقشے کی ابتداءمیں ہم نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ ایسے کلسٹروں کی تعداد جہاں احباب ترقی کے تسلسل کے لئے تیسرے سنگِ میل کو اس سکھلائی کے نتیجے میں عبور کر چکے ہیں کہ بڑی تعداد کا کس طرح اپنی سرگرمیوںکے دائرے میں خیر مقدم کرنا ہے جن کی تعداد سینکڑوں میں بڑھے گی۔ اس وقت تعداد ۲۰۰ کے اردگرد تھی اور کوئی چالیس ملکوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ پانچ سال گزرنے کےبعد اس کی تعداد حیران کن طورپر ایک ہزارتک کوئی ایک سو ممالک کے اندر بڑھ گئی۔ جو دنیا کے تمام بڑھوتری کے پروگراموں کی ایک چوتھائی ہیں اور ایک ایسی کامیابی ہیں جو ہماری توقعات سے بہت زیادہ ہیں۔ اور اس کے باوجود یہ اعدادوشمار پوری بلندیوں کو بیان نہیں کرتے جن تک بہائی جامعہ بہائی پہنچ چکا ہے۔ تیس سے زیادہ ایسے کلسٹر ہیں جہاں بنیادی سرگرمیاںجاری ہیں اور ان کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ بعض مقامات پر کل تعداد کئی ہزار ہے جہاں کئی ایک میں شرکت کرنے والوں کی تعداد بیس ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ محافل روحانی محلّی کی بڑھتی ہوئی تعداد ایسے تعلیمی پروگراموں کے کھولنے پر نگاہ لگائے ہوئے ہیں جو عملاً دیہات کے تمام بچوں اور جونیئر یوتھ کو عملاً اپنے اندر شامل کر لیں گے۔ یہی حقیقت کئی شہروں محلوں کے اندر نمودار ہو رہی ہے۔ حضرت بہاءاللہ کے امر میں مصروفیت کی کئی نمایاں مثالوں میں افراد،خاندانوں اور برادریوں سے بہت اُوپر نکل گئی ہے۔ اب دیکھنے میں آرہا ہے کہ پوری پوری آبادیاں ایک مشترکہ مرکز کی طرف رواں دواں ہیں۔ بعض اوقات طویل عرصوں سے جاری دشمنیاں جو مخالف گروہوں کے درمیان چل رہی تھیں انہیں اب پیچھے پھینکا جا رہا ہے اور بعض معاشرتی ڈھانچوں اور محرکات کی ہیئت ملکوتی تعلیمات کی روشنی میں بہتر بنائی جا رہی ہیں۔

ہم اتنی متاثر کن ترقیات پر اپنی بہت زیادہ خوشی و مسرت کا اظہار کرنے سے نہیں رہ سکتے۔ امر حضرت بہاء اللہ کی معاشرےکی تعمیر کرنے کی قوت کا ہر روز پہلے سے زیادہ وضاحت کے ساتھ اظہار ہو رہا ہے اور یہ ایک مضبوط بنیاد ہے جس پر آئندہ آنے والا نو سالہ منصوبہ استوار ہو گا۔ نمایاں قوت والے کلسٹر جس طرح کہ اُمید تھی اپنے ہمسایوں کے لئے علم اور وسائل کے ذخیرے ثابت ہوئے ہیں۔ اور ایسے علاقے جہاں ایک سے زیادہ ایسےکلسٹر موجود ہیں اُنہوں نے بڑی آسانی سے ایسے ذرائع وضع کر لئے ہیں کہ وہ ایک کے بعد دوسرے کلسٹر میں ترقی میں تیزی پیدا کر سکیں۔ تاہم ہم دوبارہ اس پر زیادہ زور دینے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ ترقی تقریباً عمومی ہے۔ ایک جگہ کے مقابلے میں دوسری جگہ کی ترقی کے صرف درجہ میں فرق ہوتا ہے۔ جامعہ کا فوج درد فوج داخلے کا مجموعی فہم اور اس کا اعتماد کہ وہ اس قابل ہے کہ وہ سلسلۂ عمل کو تحرک دینے کی ہر طرح کے حالات میں اہلیت رکھتا ہے ان درجات تک بلند ہو گئے ہیں جن کا گزشتہ عشروں میں تصور بھی نہ ہو سکتا تھا۔ گہرے سوالات جو کتنے عرصے سے دھندلے رہے تھے اور جن پر ۱۹۹۶ء میں پوری طرح توجہ مرکوز کی گئی تھی ان کا تسلی بخش جواب عالم بہائی نے دے دیا ہے۔ مومنین کی ایک نسل ہے جن کی پوری زندگیوں پر جامعہ کی ترقی کا نقش ثبت ہے۔ لیکن محض وہ پیمانہ جو ان متعدد کلسٹروں میں واقع ہوا ہے جہاں سکھلائی کی سرحدوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے اُنہوں نے فوج در فوج داخلے کے عمل میں نمایاں ترقی پیدا کی ہے جو تاریخی تناسبوں کے درمیان عظیم ترین ہے۔

کئی لوگ اس سے آگاہ ہوں گے کہ کس طرح حضرت ولی امر نے امر کے زمانوں کو یکے بعد دیگرے آنے والے عہدوں میں تقسیم کیا۔ دورِ تکوین کا پانچواں عہد سال ۲۰۰۱ء میں شروع ہوا۔ یہ بات کم معروف ہے کہ حضرت ولی امر نے اس کاخصوصی حوالہ دیا کہ وہ ملکوتی منصوبہ کے عہد ہیں اور ان عہدوں کی مختلف سطحیں ہیں۔ اس ملکوتی منصوبے کو جس کا تصور حضرت عبد البہاء نے دیا تھا دو عشروں تک روک کر رکھا گیا جب نظم اداری کے محلّی اور ملّی ادارے قائم کئے جا رہے تھے اور ان کو تقویت دی جا رہی تھی اور اسے رسمی طور پر ۱۹۳۷ء میں جاری کیا گیا جب اس کے پہلے عصر کی پہلی سطح کی ابتداء کی گئی یعنی حضرت ولی امر اللہ نے اس وقت شمالی امریکہ کے جامعہ بہائی کو سات سالہ منصوبہ عطا کیا۔ پہلے عہد کا اختتام ۱۹۶۳ء میں دس سالہ جہاد روحانی کے خاتمے کے ساتھ ہوا جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں امر کا عَلم گاڑا جا رہا تھا۔ عہد ثانی کی افتتاحی سطح پہلا نو سالہ منصوبہ تھا اور اس کے بعد کم از کم دس منصوبے اسی تسلسل سے جاری ہوئے۔ ان منصوبوں کا دورانیہ بارہ ماہ سے لے کر سات سال تک ہوتا تھا۔ اس عہد ثانی کے شروع ہوتے ہی عالم بہائی پہلے ہی سے امر میں فوج در فوج داخلے کی ابتداء کو دیکھ رہا تھا جس کی پیش بینی اس ملکوتی منصوبےکے تحریر کرنے والےکی تھی بعد میں آنے والے عشروں میں عقیدت مند مومنین کی نسلوں نے جو جامعہ اسم اعظم کے اندر پیدا ہوتی رہیں ، ملکوتی باغیچہ میں وہ حالات پیدا کرنے کی جدو جہد کی جن کی بڑے پیمانے پر برقرار رہنے والی ترقی کے لئے ضرورت تھی۔ اور اب اس عظیم الشان رضوان کے موقع پر ان مشقتوں کے کتنے کثیر ثمرات پیدا ہوئے ہیں! یہ معاملہ کہ کثیرتعداد میں لوگ جامعہ کی سرگرمیوں میں بکثرت اضافہ کرتے ہیں، وہ امر کی چنگاری کو پکڑتے ہیں اور تیزی سے کھڑے ہوتے ہیں کہ وہ منصوبےکی رہنما سرحدوں پر خدمات سر انجام دیں وہ محض ایک پیشنگوئی سے آگے بڑھے ہیں جن کا سہارا ایمان بنا ہے اور وہ بار بار ظاہر ہونے والی حقیقت بن گئے۔ ایسی اعلانیہ اور نظر آنے والی ترقی تقاضا کرتی ہے کہ اسے امر کی تاریخ کے صفحات میں نقش کیا جائے۔ ہم مسرور دلوں کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ حضرت سرکار آقا کے ملکوتی منصوبے کا تیسرا عہد شروع ہو گیا ہے۔ سطح بہ سطح اور عہد بعہد آپ کے منصوبے منکشف ہوتے رہیں گے حتیٰ کہ ملکوت کی روشنی ہر دل کو منور کر دے گی۔

٭٭٭٭

محبوب دوستوں، اس پانچ سالہ منصوبے کا کوئی جائزہ جس نے ملکوتی منصوبے کے دوسرے عہد کو تکمیل تک پہنچایا اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک اس مصیبت کا تذکرہ نہ کیا جائے جو اس کے آخری سال میں نمودار ہوا اور ابھی تک جاری ہے۔ اس عرصےمیں باہمی رابطوں پر پابندیاں جو بیشتر ممالک میں کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتی تھیں جامعہ کی اجتماعی جدو جہد کو ایسی سنگین ضرب لگا سکتی تھیں جس سے بحالی میں کئی سال لگ جاتے لیکن دو وجوہات کی بنا پر ایسا نہ ہوا۔ ایک بہائیوں کو ہر جگہ فرض کا یہ احساس تھا کہ اُنہوں نے نوع بشر کی خدمت کرنا ہے خصوصاً تباہی اور مصیبت کے وقت میںتو اور ہی زیادہ۔ دوسری وجہ عالم بہائی کی صلاحیت میں اضافہ تھا کہ اس شعور کا اظہار کیا جائے۔ کئی سالوں سے اس بات کا عادی ہوتے ہوئے کہ منظم اقدامات کے نمونوں کو اختیار کیا جائے احباب اپنی تخلیقی قوتوں اور احساس کو آگے لے آئے تاکہ اس نادیدہ بحران پر قابو پایا جا سکے جبکہ یہ یقینی بنایا گیا کہ وہ جو نئے طریقے اختیار کریں وہ اس دائرۂ عمل سے ہم آہنگ ہوں جس پر اُنہوں نے یکے بعد دیگرے آنے والے منصوبوں میں کامل رہنے کے لئے عمل در آمد کیا ہے۔ ایسا ان مشکلات کو نظر انداز کرنے کے لئے نہیں ہے جو ہر ملک کے بہائی اپنے ہم وطنوں کی طرح برداشت کر رہے ہیں۔ لیکن تمام مشکلات کے پورے عرصے کے دوران مومنین اپنے مقصد پر مرتکز رہے۔ وسائل ان جامعات کی طرف ارسال کئے گئے۔جہاں انتخابات ممکن تھے وہاں ہوئے، اور تمام حالات میں امراللہ کے اداروں نے اپنے وظائف سرانجام دیئے۔ حیرت انگیز اقدام اٹھائے گئے ہیں۔ محفل روحانی ملّی ساؤٹومے اور پرنسی پے اس رضوان پر دوبارہ قائم کر دی جائے گی بیت العدل اعظم الہی کے دو جدید ستون کھڑے کئے جائیں گے یعنی محفل روحانی ملّی کروشیا جس کا صدر دفتر زاگریب میں ہو گا۔ اور محفل روحانی ملّی تیمولیسٹے جس کا صدر دفتر ڈلی میں ہو گا۔

اور اس طرح ایک سالہ منصوبے کی ابتداءہوتی ہے۔ اس کا مقصد اور اس کے تقاضے پہلے ہی ہمارے اس پیغام میں تفصیلاً بیان ہو چکے ہیں جو یوم میثاق پر ارسال کیا گیا تھا۔ یہ منصوبہ اگرچہ مختصر ہے لیکن عالم بہائی کو نو سالہ منصوبے کے لئے تیار کرنے کو کافی ہو گا جو اس کے بعد جاری ہو گا۔ ایک خصوصی قوت کا حامل عرصہ جو ملکوتی منصوبے کی الواح کے تحریر کئے جانے کے سو سال بعد آیا ہے وہ جلد ہی حضرت عبد البہاء کی صعود کی صد سالہ برسی کے ساتھ اختتام پذیر ہو جائے گا جو دورِ تکوین کی پہلی صدی کی تکمیل کی اور دوسری صدی کی ابتداء کی نشاندہی کرے گا۔ مومنین کی جماعت اس نئے منصوبہ میں اس وقت داخل ہو گی جب نوع بشر اپنے خطرات سے دوچار ہونے کےبعد اس ضرورت کو سمجھے گی کہ عالمی للکاروں کا مقابلہ کرنے کے لئے تعاون اور ہمکاری ضروری ہے ۔ تاہم ابھی تک جاری مقابلہ بازی، ذاتی مفاد پرستی، تعصب، تنگ ذہنی کی عادات اتحاد کی طرف پیش رفت میں رکاوٹ ڈالتی ہیں باوجود اس کے کہ معاشرےکے افراد کی روز افزوں تعداد اپنے الفاظ اور اعمال سے یہ ظاہر کرتی ہیں کہ وہ بھی نوع انسانی کی جبلی وحدت کی عظیم تر قبولیت کی تمنا کرتے ہیں ۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اقوام کا خاندان اپنے اختلافات کو مشترکہ بھلائی کی خاطر ایک طرف رکھ دینے میں کامیاب ہوں۔ ان بے یقینیوں کے باوجود جو آنے والے مہینوں پر چھائی ہیں ہم حضرت بہاء اللہ سے التجا کرتے ہیں کہ آپ ان تائیدات کی جنہوں نے آپ کے پیروکاروں کو اتنے عرصے سے سہارا دے رکھا ہے ان میں زیادہ کثرت آئے تاکہ تم اپنے مشن میں بہت آگے تک بڑھو اورتمہارے سکون میں کوئی اضطراب دنیاوی ہنگاموں سے پیدا نہ ہو جن کی آپ کے شفا بخش پیغام کے لئے ضرورت پہلے سے بھی کہیں زیادہ شدید ہو گئی ہے۔

 

Windows / Mac