Return   Facebook   Zip File

Arabic

1

اے فرزند روح

میری پہلی نصیحت یہ ہے کہ تو ایک خالص، نیک اور روشن دل کا مالک بن تاکہ تو ایک دائمی ،ازلی اور ابدی سلطنت کا مالک بن جائے۔

2

اے فر زند روح

انصاف مجھے سب چیزوں سے زیادہ پیارا ہے ۔اگر تو مجھے چاہتا ہے تو اس سے منہ نہ پھیر اور غافل نہ ہو، تا کہ تو میرا امین بن سکے ۔اور انصاف کی مدد سے تو اپنی آنکھ سے دیکھے گا نہ کہ دوسروں کی آنکھ سے اور اپنے علم کے ذریعے سے جانے گا نہ کہ اپنے ہمسایہ کے علم سے۔ اس پر اپنے دل میں غور کرکہ تجھے کیا کرنا چاہئے ؟بے شک انصاف تیرے لئے میرا تحفہ اور پُرمحبت مہربانی کا نشان ہے۔ اسے اپنی نظر کے سامنے رکھ۔

3

اے فرزند انسان

اپنی قدیم ذات اور روح کی ازلی ابدیت میں مستور رہتے ہوئے میں تیرے لئے اپنی محبت سے آگاہ تھا لہذا میں نے تجھے خلق کیا ،تجھ پر اپنا عکس نقش کیا اور تجھ پر اپنا جمال ظاہر کیا۔

4

اے فرزند انسان

مجھے تیری تخلیق پسند آئی لہذا میں نے تجھے خلق کیا ،پس تو مجھ سے محبت کر تا کہ میں تیرے نام کا ذکر کروں اور تیری ر وح کو جوہر حیات سے بھردوں۔

5

اے فرزند ہستی

تو مجھ سے محبت کر تا کہ میں تجھ سے محبت کرسکوں۔ اگر تو مجھ سے محبت نہ کرے گا تومیری محبت تجھ تک ہرگز نہ پہنچ سکے گی۔ اے بندے اسے خوب سمجھ لے۔

6

اے فرزند ہستی

تیرا گلشن میری محبت اور میرا قرب تیری جنّت ہے۔ اس میں داخل ہو جا۔ دیر نہ کر ۔تیرے لئے ہماری ملکوت اعلی اور نورانی بارگاہ میں یہی مقرر کیا گیا ہے۔

7

اے فرزند بشر

اگرتو مجھے چاہتاہے تو خودکوبھول جا ۔اگر تومیری رضا چاہتا ہے تو اپنی رضا چھوڑدے ۔تا کہ تو مجھ میں فنا ہوجائے اور میں ہمیشہ تجھ میں باقی رہوں ۔

8

اے فرزند روح

تیرے لئے راحت اسی میں مقّدر ہے کہ تو اپنے آپ سے منہ پھیر کر میری طرف متوجہ ہوجائے ۔تجھے میرے نام پر افتخار کرنا چاہئے نہ کہ اپنے نام پر۔تیرا بھروسہ میری ذات پر ہونا چاہئے نہ کہ اپنی ذات پر۔ کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ سب چیزوں سے زیادہ میں ہی محبوب رہوں۔

9

اے فرزند ہستی

میری محبت میرا قلعہ ہے ۔جو اس میں آتا ہے،حفظ وامان پاتا ہے اور جو کوئی اس سے منہ پھیر لیتا ہے بھٹک کر ہلاک ہوجاتا ہے ۔

10

اے فرزند بیان

تو میر ا مضبوط قلعہ ہے اس میں داخل ہوجا،تاکہ محفوظ رہ سکے۔ میری محبت تیرے اندر ہے اسے پہچان تاکہ تو مجھے اپنے قریب پائے ۔

11

اے فرزند وجود

تومیرا چراغ ہے اور میری روشنی تیرے اندر ہے ۔تو اس سے روشن ہو۔میرے سوا کسی کی طلب نہ کر کیونکہ میں نے تجھے غنی بنایا ہے اور اپنی نعمت تجھ پر پوری کردی ہے۔

12

اے فرزند ہستی

میں نے قوت کے ہاتھوں سے تجھے بنایا اور قدرت کی انگلیوں سے تجھے پیدا کیا اور اپنا جوہرِ نُور تیرے اندر رکھا۔ تو صرف اسی پر قناعت کر اورہر چیز سے بے نیاز ہوجا۔ کیونکہ میری صنعت کامل اور میرا حکم نافذ ہوکر رہتا ہے۔ اس پر یقین رکھ اور شبہ نہ کر۔

13

اے فرزند روح

میں نے تجھے غنی بنایا ہے محتاج کیوں بنتا ہے ۔میں نے تجھے معزّز بنایا ہے ، خود کو ذلیل کیوں کرتا ہے ۔میں نے تجھے اپنے جوہر علم کا مظہر بنایا ہے۔ میرے سوا اوروں سے کیوں علم طلب کرتا ہے؟ میں نے تجھے اپنی محبت کی مٹی سے گوندھا ہے، میرے ما سوا سے کیوں دل لگاتا ہے۔ تو اپنے نفس پر غور کر، تو مجھے اپنے اندر موجود قادر مقتدر اورقیّوم پائے گا ۔

14

اے فرزند انسان

تو میرا مُلک ہے اور میرا مُلک کبھی فنا نہیں ہوتا۔ پھر تجھے اپنی فنا کا خوف کیوں ہے ؟تومیری روشنی ہے اور میری روشنی کبھی نہیں بجھ سکتی۔پھر تجھے اپنے بھجنے کا خوف کیوں ہے؟ تو میرا نور ہے اور میرا نور ہرگزکم نہیں ہوسکتا ۔تو میری قمیص ہے اور میری قمیص پرانی نہیں ہوتی۔ تو میری محبت پر یقین رکھ تاکہ افق اعٰلی میں تو مجھے پا سکے۔

15

اے فرزند بیان

تو ماسوا سے منہ پھیر کر میری طرف متّوجہ ہوجا کیونکہ میری قدرت لازوال ہے اور کبھی نہ مٹنے والی ہے۔ میری سلطنت دائمی اور اٹل ہے کبھی نہ بدلے گی۔ اور اگر تو میرے سوا کسی اور کا طلب گار ہوا تو اسے پورے عالم میں کبھی ڈھونڈنہ پائے گا ۔

16

اے فرزند نور

میرے سوا سب کو بھول جا اور میری روح سے رازونیاز کر ۔یہ میرے حکم کا لُب لباب ہے، اسی طرف توجہ کر۔

17

اے فرزند انسان

سب کو چھوڑ کر مجھے ہی اپنے لئے کافی سمجھ اور میرے سوا کسی سے مدد نہ مانگ، کیونکہ میں ہی تیرے لئے کافی ہوں۔

18

اے فرزند روح

ہم سے وہ چیز نہ مانگ جو ہم نے تیرے لئے پسند نہیں کی۔ پھر جو کچھ ہم نے تیرے لئے مقّدر کیا ہے اُسی پر راضی رہ کہ تیرے لئے یہی فائدہ مند ہے، اگر تو اس پر قناعت کرے۔

19

اے فرزندمنظر اعلیٰ

میں نے تجھ میں اپنی روح ودیعت کی ہے تا کہ تو مجھ سے محبت کرے ۔تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا اور میرے سوا کسی اور محبوب کا طلب گار ہوا؟

20

اے فرزند روح

تجھ پر میرابہت زیادہ حق ہے، بھُلایا نہیں جا سکتا ۔تجھ پر میرا فضل ِ عظیم ہے چھُپایا نہیں جا سکتا۔ میری محبت تیرے دل میں بس گئی ہے ، اس پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا ۔ میری روشنی تجھ پر آشکارہے۔چھُپ نہیں سکتی۔

21

اے فرزند بشر

میں نے تیرے لئے شجر ابہٰی پرپاکیزہ پھل مقّرر کئے ہیں ۔توان سے منہ پھیر کر ادنیٰ چیز پر کیوں راضی ہو بیٹھا ہے؟ تو اسی چیز کی طرف توجہ کر، جو افقِ اعلٰی میں تیرے لئے بہتر ہو

22

اے فرزند روح

میں نے تجھے بلند مرتبہ خلق کیا تھا،تو نے اپنے آپ کو پست کیوں کر لیا ۔ اب تو اس بلندی کو حاصل کر جس کے لئے تجھے پیدا کیا گیا تھا۔

23

اے ظُلمت کے فرزند

میں تجھے بقاکی طرف بلا تا ہوں لیکن تو فنا کا طالب ہے۔کس چیز نے تجھے ہماری رضا سے منہ پھیر کر اور اپنی مرضی کی طرف متوجہ کر لیا ہے۔

24

اے فرزند انسان

اپنی حد سے آگے نہ بڑھ اور جو بات تیرے لائق نہیں اُس کا دعویٰ نہ کر۔ توقدرت اور اقتدار کے مالک جمال الٰہی کے سامنے سر بسجود ہوجا۔

25

اے فرزند روح

مسکین پر اپنی بڑائی نہ جتا۔کیونکہ میں اس کی رہنمائی کرتا ہوں اور تیری افسوسناک حالت دیکھتا ہوں اور تجھ پرہمیشہ لعنت بھیجتا ہوں ۔

26

اے فرزند ہستی

توکیوں اپنے عیب بھول گیا اور میرے بندوں کے عیب نکالنے میں مصروف ہوگیا ہے ؟جو شخص ایسا کرتا ہے اس پر میں لعنت بھیجتا ہوں ۔

27

اے فرزندِ انسان

جب تک تو خود گنہگار ہے کسی کے گناہ کا ذکر نہ کر۔ اگر تو نے اِس حکم کی خلاف ورزی کی تو، تو ملعون ہے اورمیں اس کا گواہ ہوں ۔

28

اے فرزند روح

تو یہ بات یقین سے جان لے کہ جو شخص لوگوں کو اچھے عمل کا حکم دیتاہے مگر خود برُے کام کرتا ہے، تو خواہ وہ میرے نام سے منسوب کیوں نہ ہو،اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

29

اے فرزند ہستی

جو بات تو اپنے لئے پسند نہیں کرتا، وہ کسی کے لئے پسند نہ کر اور جس چیز پر تو خود عمل نہیں کرتا دوسروں کو عمل کی تلقین نہ کر تیرے لئے یہ میرا حکم ہے اِس پر عمل کر ۔

30

اے فرزند انسان

میرے بندے کو جب وہ تجھ سے کچھ مانگے محروم نہ کر۔ کیونکہ اس کا چہرہ میرا چہرہ ہے پس مجھ سے شرم کر۔

31

اے فرزند ہستی

قبل اس کے کہ تیرا حساب لیا جائے ہر روز اپنے نفس کا حساب کر لیا کر کیونکہ موت اچانک آ جائے گی اور تجھے اپنے اعمال کا حساب دینے کیلئے بلایا جائے گا۔

32

اے فرزند خاک

موت کو میں نے تیرے لئے خوشخبری قرار دیا ہے پھر تو اس سے رنجیدہ کیوں ہوتا ہے ؟ اور نور کو میں نے اس لئے بنایا ہے کہ تو اس سے منور ہوجائے۔ پھر تو اس سے کیوں چھُپتا ہے؟

33

اے فرزند روح

میں تجھے مسرّت بخش نور کی بشارت دیتا ہوں، تو اس سے خوش ہوجا۔ میں تجھے بار گاہ قدس میں بلاتا ہوں۔ اس میں پناہ لے، تاکہ تو ابد الآباد تک امن سے رہ سکے۔

34

اے فرزند روح

روح القّدس تجھے انس ومحبت کی بشارت دیتا ہے ،پھر تو کس لئے غمگین ہو تا ہے؟ اور قوی روحِ تجھے میرے امر پر قائم رہنے کی توفیق بخشتی ہے تو پھر کیوں حِجاب میں رہ سکتا ہے؟ میرے چہرے کا نور تیرے آگے آگے چلتاہے پھر توکیسے بھٹک سکتا ہے؟

35

اے فرزند انسان

ہم سے دوری کے سوا کسی حالت میں غمگین نہ ہو۔ اور ہمارے قرب اور ہماری طرف رجوع کے سوا کسی بات سے خوش نہ ہو ۔

36

اے فرزند انسان

اپنے دلی سرُور سے مسرور ہوجا ۔تاکہ تو میری لقاء کے قابل ہوسکے اور میرے جمال کو منعکس کر سکے۔

37

اے فرزند انسان

اپنے آپ کو میرے خوبصورت لباس سے محروم نہ کر۔ اور میرے شاندار چشمہ سے اپنے آپ کو محروم نہ رکھ، تاکہ تو میری بقائے ابدی میں رہتے ہوئے کبھی پیاسا نہ ہو۔

38

اے فرزند ہستی

میری محبت کی خاطر میرے احکام پر عامل ہو اور میری رضا جوئی کیلئے اپنے نفس کو ہویٰ و ہوس سے باز رکھ۔

39

اے فرزند انسان

میرے جمال کی محبت میں میرے احکام کی نافرمانی نہ کر اور میری رضا جوئی کے لئے میری وصّیتوں کو فراموش نہ کر ۔

40

اے فرزند انسان

تو زمین کی وسعت اور فضائے آسمانی میں بھاگتا پھرے ،تو بھی ہمارے حکم کے آگے جھکنے اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے کے علاوہ کہیں چین نہ پا سکے گا ۔

41

اے فرزند انسان

میرے امر کی عظمت بڑھا تا کہ میں اپنی عظمت کے بھید تجھ پر ظاہر کروں اور دائمی نور کے ساتھ تجھ پر نمودار ہو کر تجھے روشن کردوں۔

42

اے فرزند انسان

تو میرے سامنے فروتنی اختیار کر، تا کہ میں تیری تواضُع کروں۔ میرے امر کا حامی و ناصر بن، تاکہ تو دنیا میں کامیاب و کامران ہو۔

43

اے فرزند ہستی

میری زمین پر میرا ذکر کر، تاکہ میں اپنے آسمان پر تیرا ذکر کروں۔اِس سے تیری آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی اوراُس سے میری۔

44

اے فرزند عرش

تیراکان میرا کان ہے اُس سے سن۔ تیری آنکھ میری آنکھ ہے اُس سے دیکھ۔ تاکہ تو اپنے وجود میں میری بلند تقدیس کا مشاہدہ کرسکے اور میں تیرے بلند مقام کی شہادت دوں۔

45

اے فرزند ہستی

میری رضا پر مطمئن اور میرے احکام پر شکر گزار ہو کر میری راہ میں شہادت کی تمنا کر، تا کہ تو میرے ساتھ خیمۂ عظمت میں عزت کے پردوں میں چین سے رہ سکے۔

46

اے فرزند انسان

تو اپنے معاملہ پر غورو فکر کرکہ کیا تو اپنے بستر پر مرنا پسند کرتا ہے یا میری راہ میں خاک پر شہید ہو کر میرے مطلع امر اور فردوس اعلیٰ میں میرے نور کا مظہر بننا چاہتا ہے؟ اے بندے انصاف سے کام لے۔

47

اے فرزند انسان

اپنے جمال کی قسم ،تیرے بالوں کا تیر ے خون سے رنگین ہو جانا میرے نزدیک دونوں جہانوں کی آفرینش اور دونوں عالم کی روشنی سے بڑھ کر ہے۔ اے بندے اسے حاصل کرنے کی کوشش کر۔

48

اے فرزند انسان

ہر چیز کی ایک علامت ہوتی ہے ،محبت کی علامت میرے فیصلہ پر ثابت قدمی اور میری طرف سے آزمائشوں پر صبر کرناہے۔

49

اے فرزند انسان

سچا عاشق مصیبت کی اسی طرح تمنا کرتا ہے جس طرح عاصی مغفرت کی اور گناہ گاررحمت کی آرزوکرتاہے۔

50

اے فرزند انسان

اگر میری راہ میں تجھ پر مصیبت نہ آئے تو کیونکر تو ان لوگوں کے نقش قدم پر چل سکتا ہے جو میری رضا پر راضی رہتے ہیں ۔ اور اگر میرے وصال کے شوق میں تجھے کوئی تکلیف نہ ہو تو، میرے جمال کی محبت میں تجھے روشنی کس طرح پہنچے گی ؟

51

اے فرزند انسان

میری طرف سے آزمائش میری عنایت ہے جو ظاہر میں آگ اور عذاب ہے مگر باطن میں نور و رحمت ہے۔ اس کی طرف جلد قدم بڑھا تا کہ تو ازلی نور اورابدی روح بن جائے۔تیرے لئے یہ میرا حکم ہے اس پر عمل کر۔

52

اے فرزند بشر

اگر تجھے عزت نصیب ہو تو اس پر خوش نہ ہواور اگر تیری ذلّت ہو تو اس سے رنجیدہ نہ ہو اس لئے کہ یہ دونوں اپنے وقت پر فنا ہوجائیں گی۔

53

اے فرزند ہستی

اگر تو مفلس ہو جائے توغم نہ کر، کیونکہ سلطان غناء کچھ عرصے میں تجھ پر نازل ہوگا۔ اور ذلت سے نہ ڈر کیونکہ ایک دن تجھے عزت حاصل ہو گی۔

54

اے فرزند ہستی

اگر تیرا قلب ایک باقی و ابدی دولت اور قدیم و ازلی زندگی چاہتا ہے تو اس فانی اور مٹ جانے والی دولت کو چھوڑ دے۔

55

اے فرزند ہستی

دنیا داری میں مشغول نہ رہ کیونکہ ہم آگ سے سونے کو پرکھتے ہیں اور سونے سے اپنے بندوں کو آزماتے ہیں۔

56

اے فرزند انسان

تجھے سونے (زر) کی خواہش ہے اور میں تجھے اس سے آزاد کرنا چاہتا ہوں۔تو اپنی دولت مندی سونے کے حصول میں سمجھتا ہے مگر میں تیری امیری اس میں جانتا ہوں کہ تو سونے سے پاک اور آزاد ہو جائے۔ اپنی زندگی کی قسم یہ میرا علم ہے اور وہ تیرا وہم ہے۔ میرا کام تیرے کام سے کیسے متفق ہو سکتا ہے؟

57

اے فرزند انسان

میری دولت میرے غریب لوگوں پر خرچ کر، تا کہ تجھ کو آسمان پر غیر فانی عزت کے گنجینے اور دائمی بزرگی و عظمت کے خزانے حاصل ہوں لیکن اپنی جان کی قسم اگر تو میری آنکھ سے دیکھے تواس سے جان کی قربانی زیادہ بہتر ہے ۔

58

اے فرزند انسان

ہیکل وجود میرا عرش ہے اسے ہر چیز سے پاک کر دے تاکہ میں اس میں جلوہ آراء ہو کر بس جاؤں۔

59

اے فرزند ہستی

تیرا دل میری منزل ہے۔ میرے نزول کے لئے اسے پاک کر اور تیری روح میرا منظر ہے۔ میرے ظہور کے لئے اسے مقدس بنا ۔

60

اے فرزند انسان

اپنا ہاتھ میرے گریبان میں ڈال تاکہ میں تیرے گریبان سے اپنا چمکتا ہو ا نورانی سر بلند کروں ۔

61

اے فرزند انسان

اگر تو میرا وصال چاہتا ہے تو میرے آسمان کی طرف پرواز کر، تا کہ تو بے نظیر پاکیزہ شراب اور لازوال عظمت کے جام نوش کر سکے۔

62

اے فرزند انسان

مدتیں گزر گئیں مگر تو ہمیشہ اپنے نفسانی توہمات اور بے کار خیالات میں مشغول رہا ۔ تو کب تک اپنے بستر پر پڑا سوتا رہے گا؟اپنی نیند سے بیدار ہو کیوں کہ آفتاب سر پر آ گیا ہے، شاید وہ تجھے اپنے جمال کے نور سے چمکا دے۔

63

اے فرزند انسان

افق طور سے تجھ پر نور چمکا اور تیرے سینا ئے دل میں نورانی رُوح پھونکی گئی۔ پس اپنے آپ کو نفس و ھویٰ کے پردوں سے آزاد کر۔پھرمیری بارگاہ میں داخل ہو جا تاکہ تو حیات جاوید کے قابل اور میری ملاقات کے لائق بنے اور تو موت، خستگی اور تکالیف سے بچا رہے۔

64

اے فرزند انسان

میری ازلیت میری تخلیق ہے جسے میں نے تیرے لئے پیدا کیا ہے۔ پس اس کو اپنی ہیکل کالباس بنا۔ میری وحدانیت میری اختراع ہے جسے میں نے تیرے لئے نمودار کیا ۔ تو اس کو اپنی قمیض بنا لے تاکہ تو ابد تک میری فیض بخش ہستی کا مشرق و مظہر رہے۔

65

اے فرزند انسان

میری عظمت تیرے لئے میرا عطیہ ہے اور میری کبریائی تیرے لئے میری رحمت ہے اور جو چیز میری شان کے لائق ہے اُس کو نہ تو کوئی سمجھتا سکتاہے اور نہ ہی احاطہ کر سکتا ہے۔ میں نے اپنے بندوں پر اپنی عنایت کی علامت کے طور پر اس کو اپنے راز کے خزانوں اور اپنے امر کے گنجینوں میں محفوظ کر دیا ہے۔

66

اے مقدس اور نظر نہ آنے والی حقیقت کے فرزند و

تمہیں میری محبت سے رو کا جائے گااور روحیں میرے ذکرکیلئے بے چین ہوں گی کیونکہ انسانی عقل مجھے سمجھنے کی طاقت نہیں رکھتی اورقلوب میرے ادراک سے قاصر ہیں۔

67

اے فرزند جمال

اپنی روح، اپنی عنایت اپنی رحمت اور اپنے حسن کی قسم میں نے جو کچھ اپنی قدرت کی زبان سے تجھ پر نازل کیا اور قلم قوت سے جو کچھ میں نے لکھا وہ تیری استطاعت اور سمجھ کے مطابق ہے، نہ کہ میری شان اور میرے ملیح انداز بیان کے مطابق ہے ۔

68

اے فرزند انسان

کیا تمہیں معلوم ہے کہ ہم نے تم کو ایک ہی مٹی سے کیوں پیدا کیا ؟اس لئے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص پر فخر نہ کرے۔ ہر وقت اپنے دل میں اپنی پیدائش پر غور کرتے رہو۔تم پر لازم ہے کہ جس طرح ہم نے تم کو ایک ہی چیز سے پیدا کیا ہے تم بھی ایک شخص کی مانند بن جاؤ۔ گویا کہ تم ایک ہی پاؤں سے چلتے ہو اور ایک ہی منہ سے کھاتے ہو اور ایک ہی زمین پر رہتے ہو ۔حتیٰ کہ تمہاری ہستیوں سے اور تمہارے اعمال و افعال سے توحید کی نشانیاں اور انقطاع کے جواہر ظاہر ہوں۔ اے گروہ انوار تم اس سے نصیحت حاصل کرو تا کہ تم بلند ترین عظمت کے درخت سے قدسی پھل حاصل کرسکو۔

69

اے فرزندان روح

تم میرے خزانے ہو کیونکہ میں نے تمہارے اندر اپنے اسرار کے موتی اور علم کے جواہر جمع کردیئے ہیں ۔میرے بندوں کے درمیان شریر لوگوں سے ان کی حفاظت کرو۔

70

اے اس کے بیٹے جو اپنی ذاتی بادشاہت میں بذات خود قائم ہے

خوب سمجھ لے کہ میں نے تجھ پر تقدیس کی خوشگوار ہوائیں چلائی ہیں ۔ تجھ پر اپنا کلام مکمل کردیا ہے اور تیرے ذریعے اپنی نعمت تمام کردی ہے اور تیرے لئے میں نے وہی چاہاجو اپنے لئے چاہا۔ پس میری رضا پر اطمینان رکھ اور میرا شکر ادا کر۔

71

اے فرزند انسان

جو کچھ ہم نے تجھ پر القاکیا ہے اس کو اپنی روح کی لوح پر نور کی روشنائی سے لکھ اور اگر تو یہ میرے لئے نہیں کرسکتا ہو تو اپنے دل کے جوہرکو اپنی روشنائی بنا اور اگر تو یہ بھی نہ کرسکے تو اس سر خ روشنائی سے لکھ جو میری راہ میں بہائی گئی ہے ۔ بیشک یہ روشنائی میرے ہر چیز سے زیا دہ شیریں ہے۔ تاکہ اس کا نور ابد تک قائم رہے ۔

Persian

1

اے فرزند روح

ہر پرندہ اپنے گھونسلے پر نظر رکھتا ہے اور ہر بلبل کادلی مقصود حسنِ گل ہے۔ مگر انسانی دلوں کے پرندے فانی مٹی پر قناعت کرکے ابدی آشیانے سے دور رہ گئے ہیں۔ جدائی کی خاک پر نظر جما کرقرب الہٰی کے جمال سے محروم رہ گئے ہیں۔ حیرت و حسرت اور افسوس کہ ایک پیالے پانی کیلئے رفیق اعلیٰ کے بحر کی موجوں کو چھوڑ بیٹھے اور افق ابہیٰ سے دور ہوگئے۔

2

اے دوست

اپنے دل کے باغ میں محبت کے پھولوں کے سوا اور کچھ نہ بو ۔ اورحُبّ و شوق کی بلبل کا دامن نہ چھوڑ۔ نیک لوگوں کی صحبت کو غنیمت جان اور شریروں کی رفاقت سے دوری اختیار کر۔

3

اے فرزند انصاف

ایک عاشق وطنِ معشوق کے علاوہ اور کہاں جا سکتا ہے ؟ اور کونسا طالب محبوب کے بغیر راحت پاسکتا ہے؟ عاشق ِصادق کے لئے تو زندگی وصال میں ہے اور فراق میں موت ہے۔ اس کا سینہ صبر سے خالی اوراس کا دل بے قرار رہتا ہے۔ وہ لاکھوں جانیں فدا کر کے کوئے جاناں کی طرف دوڑتا ہے۔

4

اے فرزند خاک

میں یقین سے کہتا ہوں کہ وہ شخص سب سے بڑا غافل ہے جو صرف لفظوں پر جھگڑتا ہے اور اپنے بھائی پر بڑائی چاہتا ہے۔ کہہ دے اے بھائیو اپنے آپ کو اعمال سے آراستہ کرو، نہ کہ اقوال سے۔

5

اے فرزندان زمین

یقین جانو کہ جس دل میں حسد کا شائبہ بھی باقی رہے گا وہ میری بار گاہِ بقا میں داخل نہیں ہو سکتا اور میرے عالم تقدیس سے چلنے والی پاک خوشبو نہیں سونگھ سکتا۔

6

اے فرزند محبت

اعلیٰ ترین خیمۂ قرب اور بلند ترین درختِ عشق سے تو صرف ایک قدم کے فاصلہ پر ہے۔ پہلا قدم اٹھا اور دوسرا قدم عالم قِدم میں رکھ دے اور بقا کے خیموں میں داخل ہو جااور جو کچھ قلمِ عزّت سے نازل ہوا ہے اُسے غور سے سُن۔

7

اے فرزند عزت

عالمِ قُدس کی راہ میں چُست ہو جااورمجھ سے اُنس کے آسمان پر قدم رکھ۔ دل کو صیقلِ رُوحانی کے ذریعے صاف کر اوربارگاہ عظمت کا قصد کر۔

8

اے سایۂ نابود

شک کے پست درجوں کو چھوڑکر۔ یقین کی شاندار بلندیوں میں پہنچ جا۔ حقیقت کی آنکھ کھول، تاکہ تو روشن ترین جمال دیکھ کر پکار اٹھے کہ بزرگ و برتر ہے وہ پروردگار جو بہترین خالق ہے۔

9

اے خواہش کے فرزند

اچھی طرح سُن لے کہ فانی آنکھ لازوال حسن کو نہیں پہچان سکتی۔مردہ دل مرجھائے ہوئے پھول کے سوا اور کسی چیز پر مائل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ہر ایک اپنے جیسے کو ڈھونڈتا ہے اور اپنی ہی جنس سے لگاؤ رکھتاہے۔

10

اے فرزندخاک

اندھا بن تا کہ تو میرے جمال کو دیکھ لے۔ بہرا بن تاکہ تو میری سریلی صداسن سکے۔ جاہل بن تاکہ تو میرے علم سے حصہ پا سکے۔ محتاج بن تا کہ تو میری لازوال دولت کے سمندر سے لافانی حصہ پا سکے۔ اندھا ہو جا یعنی میرے جمال کے سوا ہر چیز کو دیکھنے سے۔ بہرا ہو جا یعنی میرے سوا کسی اور کا کلام سننے سے۔ جاہل ہو جا یعنی میرے علم کے سوا ہر علم سے۔ تاکہ تو پاک نظر، پاکیزہ دل اور لطیف سماعت کے ساتھ میری باگاہ قدس میں داخل ہوسکے۔

11

اے دو آنکھوں والے

ایک آنکھ بند رکھ اور دوسری آنکھ کھلی رکھ، بند رکھ یعنی دنیا اور اہل دنیا کی طرف سے، کھلی رکھ ، یعنی محبوب کے جمالِ قُدس کی طرف۔

12

اے میرے بچو

مجھے ڈر ہے کہ تم نغمۂ بلبل سے فیضیاب ہوئے بغیر ملک فنا کو نہ لوٹ جائو اور جمال گل کو دیکھے بغیر پھر آب و گل میں نہ مل جائو۔

13

اے دوستو

جمال فانی میں محو ہو کر جمال باقی سے دور نہ ہونا اور اس خاکی اور فانی دنیا سے دل نہ لگانا۔

14

اے فرزندِ روح

وہ وقت نزدیک ہے جب بلبل قدسی ،اسرارِ معانی بیان کرنے سے رُک جائے گی اور تم سب لوگ نغمہ رحمانی اور ندائے سبحانی سے محروم ہو جاؤ گے۔

15

اے جو ہر غفلت

لاکھوں لِسان معنوی ایک ہی زبان میں کلام کر رہی ہیں اورلاکھوں ِغیبی اسرار ایک ہی لحن میں نغمہ سرا ہیں۔ لیکن افسوس کہ کان نہیں جو سن سکیں اور دل نہیں جو بات کو سمجھ سکے۔

16

اے رفیقو

لامکان کے دروازے کھل گئے ہیں اور معشوق کا شہر عاشقوں کے خون سے آراستہ ہو گیا ہے۔صرف چند لوگوں کے سوا سب لوگ اس شہرِ روحانی سے محروم رہ گئے ہیں اور ان چند لوگوں میں سے بھی پاک دل اورپاکیزہ روح کے حامل نفوس کم ہی نظر آتے ہیں ۔

17

اے فردوس بریں کے رہنے والو

اہل یقین کو مطلع کر دو کہ قرب رضوان کی فضائے قُدس میں ایک نیا گلشن کھِلا ہے اور تمام بلند مقام کے حامل نفوس اور خُلدِ بریں کے لافانی باشندے اُس کا طواف کر رہے ہیں۔ کوشش کرو کہ تم اس مقام پر پہنچ جاؤ اور اس گلشن کے پھولوں میں عشق حقیقی کے اسرار تلاش کر و اور اس کے لازوال پھَلوں سے احدیت کی اعلیٰ حکمتیں حاصل کرو۔ اُن کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی جو اس گلشن میں داخل ہو کر قیام کرتے ہیں۔

18

اے میرے دوستو

کیا تم اس روشن صبح صادق کو بھول گئے ہو جب کہ تم اس درخت انیسہ کے سایہ تلے جو فردوس اعظم میں لگا ہوا ہے مبارک قدسی فضا میں میرے پاس حاضر تھے اور میں نے تین پاکیزہ باتیں کہی تھیں جنہیں سن کر تم سب مدہوش ہو گئے تھے۔ وہ باتیں یہ تھیں۔

19

اے دوستو اپنی مرضی کو میری مرضی پر ترجیح نہ دو۔ اور وہ چیز ہر گز نہ چاہو جو میں تمہارے لئے نہیں چاہتا۔ او ر خواہشات سے آلودہ و مردہ قلوب کے ساتھ میرے پاس نہ آؤ۔ اگر تم اپنی روحیں پاکیزہ کر لو توفوراً اُس صحرا اور اُس فضا کو یادکرلوگے اور میرے بیان کی حقیقت تم سب پر روشن ہو جائے گی۔

فردوس کی پانچویں لوح اور آٹھویں سطر مقدس میں فرماتا ہے :

20

اے بستر غفلت کے مرُدو

زمانے گزر گئے اور تمہاری قیمتی عمریں ختم ہونے کو ہیں لیکن تمہاری ایک پاکیزہ سانس تک ہماری بارگاہ قدس تک نہ پہنچی۔ تم شرک کے سمندروں میں غوطے کھا رہے ہو اور زبان سے کلمۂ توحید رٹ رہے ہو۔جس کو میں نے قابل نفرت قرار دیا تم نے اسے اپنامحبوب جاناں اور میرے دشمن کو تم نے اپنا دوست بنا لیا ۔ پھر بھی تم میری زمین پر انتہائی خوشی و خرمی سے چلتے پھرتے ہو اور اس حقیقت سے غافل ہو کہ میری زمین تم سے بے زار ہے اور زمین کی چیزیں تم سے دور بھاگ رہی ہیں۔ اگر تم اپنی آنکھیں کھولو، توحقیقت اس خوشی سے لاکھوں غموں کو اچھا اوراس زندگی سے موت کو بہتر قرار دوگے۔

21

اے چلتی پھرتی خاک

میں تجھ سے اُنسیت چاہتا ہوں اور تو مجھ سے مایوس ہے۔گناہوں کی تلوار نے تیرے درختِ امید کو کاٹ ڈالا ہے۔ میں ہر حال میں تیرے پاس ہوں اور تو تمام احوال میں مجھ سے دور ہے۔ میں نے تیرے لئے لازوال عزت پسند کی اور تو نے بے انتہا ذلت ،اب جو کچھ وقت باقی ہے اس میں رجوع کر اوراس مہلت کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔

22

اے فرزند خواہش

علم و بصیرت رکھنے والے سالہا سال کوشش کرتے رہے، مگر وصال ذوالجلال سے فائز نہ ہو سکے۔انہوں نے اس کی تلاش میں عمریں گزار دیں مگر اس کے چہرے کے حسن کو دیکھنے سے محروم رہے۔ اور تو بغیر کسی کوشش کے منزل پر پہنچ گیا اور جستجو کئے بغیر اپنا مطلب حاصل کر لیا۔ پھر اس رتبہ و مقام کے بعد تو اپنے نفس کے حجاب میں ایسا محجوب رہا کہ تیری نگاہ محبوب کے جمال پر نہ پڑی اور تیرا ہاتھ دامن یار تک نہ پہنچا۔ اے اہل نظر دیکھو اور تعجب کرو

23

اے دیار عشق میں بسنے والو

شمع بقا کو فنا کے جھونکوں نے گھیر لیا ہے۔ اور جوان ِروحانی کا حسن و جمال گہرے غبارِ ظلمانی میں چھپ کر رہ گیا ہے۔ شہنشاہ عشق ظالموں کے ہاتھوں مظلوم ہے۔ قدسی کبوتر اُلوؤں کے پنجوں میں گرفتار ہے۔ نورانی خیموں میں رہنے والے او ر اہل ملأ اعلیٰ گریہ و زاری کر رہے ہیں اور تم ارض غفلت پر نہایت آرام سے رہ رہے ہو۔ اور اپنے آ پ کو مخلص دوستوں میں شمار کرتے ہو۔ تمہارا یہ خیال کتنا باطل ہے

24

اے عالمِ کہلانے والے جاہلو

تم بظاہر گلہ بانی کا دعویٰ کیوںکرتے ہو اور باطن میں میری بھیڑوں کے لئے بھیڑئیے ہو گئے ہو؟تم اس ستارے کی مانند ہو جو صبح سے پہلے چمکتا ہے ۔ بظاہر روشن و درخشاں ہو تا ہے اور حقیقت میں میرے شہر کے قافلوںکی گمراہی اور ہلا کت کا موجب ہے۔

25

اے ظاہر میں آراستہ اور باطن میں کاستہ

تمہاری مثال صاف شفاف کڑوے پانی کی سی ہے جس میں بظاہرانتہائی لطافت و صفائی نظر آتی ہے اور جب اُسے احدیت کا ذائقہ شناس چکھتا ہے تو اس کا ایک قطرہ بھی قبول نہیں کرتا۔ بیشک آفتاب کی تجلی مٹی اور آئینہ دونوں میں موجود ہے مگر دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ،بلکہ بے انتہا فرق ہے۔

26

اے میرے ظاہری دوست

ذرا توغور کرکہ،کیا کبھی تو نے سنا ہے کہ دوست و دشمن ایک ہی دل میں سما سکتے ہیں؟ پس اپنے دل سے دشمن کو نکال دے تاکہ دوست اپنے گھر میں آ بسے۔

27

اے فرزند خاک

آسمان و زمین کی سب چیزیں میں نے تیرے لئے خلق کی ہیں مگر دلوں کو میں نے صرف اپنے جمال و جلال کے نزول کی تجلی گاہ قرار دیا ہے اور تو نے میرا یہ گھر اور محل غیروں کو دے دیا۔ چنانچہ جب کبھی میرا مقدس ظہور اپنے مکان کی طرف آیا تو غیروں کو وہاں پایااور گھر چھوڑ کر فوراً حریم جاناں کو چلا گیا۔ اس کے باوجود میں نے تیری پردہ پوشی کی اور راز فاش نہ کیا اور تیری شرمندگی پسند نہ کی۔

28

اے خواہش کے پُتلے

میں بار ہا صبح کے وقت مشرقِ لامکان سے تیرے مکان میں آیا اور تجھے بستر راحت پر غیر کے ساتھ مشغول پایا اور روحانی بجلی کی مانند عظمت سلطانی کے بادلوں میں واپس چلا گیالیکن اپنے قُرب کی خلوت گاہوں میں قدسی لشکروں کے سامنے اس کا اظہار نہ کیا۔

29

اے فرزندبخشش

تو عدم کے صحراؤں میں تھا، میں تجھے امر کی مٹی سے عالم ظہور میں لایا۔ اور تمام ذراتِ ممکنات اور حقائقِ کائنات کو تیری پرورش کے لئے مقرر کیا۔ چنانچہ ماں کے پیٹ سے باہر آنے سے پہلے ہی شفاف دودھ کے دو چشمے تیرے لئے معین کر دیئے اور بہت سی آنکھیں تیری حفاظت پر لگا دیں اور تیری محبت دلوں میں ڈال دی اور محض اپنی بخشش سے اپنے سایۂ رحمت میں تیری پرورش کی اور جوہر فضل و رحمت سے تیری حفاظت فرمائی۔ اِن سب مراتب کا مقصد یہ تھا کہ تو ہماری ابدی بار گاہ میں آجائے اور ہماری غیبی عنایات کے قابل ہو جائے۔ مگر اے غافل تو نے پرورش پا کر ہماری سب نعمتوں سے غفلت اختیار کی اور اپنے باطل خیالات میں مصروف ہوگیا۔ یہاں تک کہ تو بالکل ہی بھول گیا اور دوست کے دروازے سے ہٹ کر دشمن کے محل میں جا پہنچا اور وہیں ٹھہر گیا۔

30

اے بندئہ دنیا

اوقات سحر میں بارہا میری نسیمِ عنایت تجھ پر ہوکر گزری اور تجھے بستر غفلت پر سوتا پایا۔ وہ تیرے حال پر روئی اور لوٹ گئی۔

31

اے فرزند زمین

اگر تو مجھے چاہتا ہے تو میرے سوا کسی کو نہ چاہ اور اگر میرا حسن و جمال دیکھنا ہے تو دنیا و مافیہاسے نظریں ہٹا لے۔ کیونکہ میری اور غیر کی چاہت آگ اور پانی کی مانند ایک دل میں نہیں سما سکتی۔

32

اے اجنبی دوست

تیرے دل کی شمع میرے دست قدرت کی روشن کی ہوئی ہے اسے نفس و ہواکی بادِ مخالف سے گُل نہ کراور تیری تمام بیماریوں کا طبیب میرا ذکر ہے اسے فراموش نہ کر۔ میری محبت کو اپنا ذاتی سرمایہ بنا اور اسے اپنی نظر اور جان کی مانند عزیز رکھ۔

33

اے میرے بھائی

میری میٹھی زبان سے میری لطیف باتیں سن اور میرے شیریں لبوں سے قُدسِ روحانی کا بہتا پانی پی۔ میری حکمت لدّنی کے بیج دل کی پاک زمین میں بکھیر دے اور یقین کے پانی سے سیراب کر، تاکہ میرے علم و حکمت کی شگوفے تیرے پاک دل کی زمین سے نکل کر سر سبز ہوجائیں۔

34

اے میرے اہل رضوان

تمہاری محبت و دوستی کا درخت میں نے گُلشنِ قُدسِ رضوان میں اپنی مہربانی کے ہاتھ سے لگایا ہے اور اپنی رحمت کی بارش سے اسے سیراب کیا ہے، اب اس کے پھل دینے کا وقت آگیا ہے۔ کوشش کرو کہ یہ محفوظ رہے او ر نفس و ہویٰ کی آگ سے نہ جل جائے۔

35

اے میرے دوستو

گمراہی کا چراغ بجھا دو اور ہدایت کی دائمی مشعل اپنے دل میں روشن کرو کہ عنقریب عالم وجو د کا تجزیہ کرنے والے معبود کی مقدس بارگاہ میں خالص تقویٰ او ر شناخت، عمل پاک کی شناخت کے سوا کچھ قبول نہ کریں گے۔

36

اے فرزند خاک

بندوں میںسمجھ دار وہ ہیں جو جب تک سننے والے کان نہیں پاتے لب کشائی نہیں کرتے جیسا کہ ساقی جب تک طلب نہیں دیکھتا ساغر نہیں دیتا اور عاشق جب تک جمالِ معشوق کا دیدار نہیں کر لیتا جان و دل سے جوش و خروش میں نہیں آتا۔ پس لازم ہے کہ علم و حکمت کے بیج دل کی پاک زمین میں ڈال کر پوشیدہ رکھے جائیں تاکہ حکمت الہی کی شگوفے دل سے نکلیں نہ کہ خاک و گل سے۔

یہ بات لوح کی پہلی سطر میں مذکور و مسطورہے اور خدائی حفاظت کے خیموں میں مستور ہے :

37

اے میرے بندے

مُلکِ بے زوال کو ایک فانی شیٔ کی خاطر ترک نہ کر، اور فردوس کی شہنشاہی کو دنیاوی خواہشات کیلئے ہاتھ سے جانے نہ دے۔ یہ ہے زندگی کا وہ آبِ کوثر جو قلم رحمن کے چشمے سے جاری ہوا ۔ پینے والوں کو مبارک باد۔

38

اے فرزند روح

پنجرے کو توڑ دے اور ہما ئے عشق کی مانند ہوائے قدس میں پرواز کر۔ اپنے نفس سے گزر جا اور نفس رحمانی کے ساتھ پاک فضائے ربانی میں آرام کر۔

39

اے فرزند خاک

ایک گزرے ہوئے دن کی راحت پر قناعت نہ کر اور خود کو دائمی و لازوال راحت محروم نہ کر ۔ابدی راحت کے گلشن بقا کو فانی و خاکی ڈھیر میں تبدیل نہ کر۔ قید خانہ سے نکل کر خوش منظر صحرائے روح میں پرواز کر اور دنیا کے قفس سے نکل کر لا مکان کے دلکش باغ کی طرف پرواز کر۔

40

اے میرے بندے

دنیا کی قید سے اپنے آپ کو رہائی دے اور اپنی روح کو نفس کے حبسِ بے جا سے آزاد کر۔اس وقت کو غنیمت جان ،کیونکہ یہ وقت لوٹ کر تیرے پاس نہیں آئیگا۔

41

اے میری کنیز کے فرزند

اگر تو لازوال سلطنت کو دیکھ لے تو اس فانی دنیا سے گزر جانے کیلئے پوری کوشش کریگا۔ لیکن اسے پوشیدہ رکھنے میں بڑی حکمتیں ہیں اور اُسے ظاہر کرنے میں بہت سے رموز ہیں۔ پاک دلوں کے سوا انہیں کوئی نہیں سمجھ سکتا۔

42

اے میرے بندے

دل کو بغض و کینہ سے پاک کر اور حسد سے مبّرا ہو کر خدائے واحد کی مقدس بارگاہ میں داخل ہو جا۔

43

اے میرے دوستو

رضائے دوست کی راہوں پر چلو اور اس کی رضا اس کی مخلوق کی خوشنودی میں ہے ۔کسی بھی دوست کواپنے دوست کی مرضی کے بغیر اس کے گھر میں داخل نہیں ہونا چاہیے اور اُس کے اموال میں دست اندازی نہیں کرنی چاہییاور اپنی مرضی کو اس کی مرضی پر ترجیح نہیں دینی چاہیے اور اپنے آپ کو اس سے برتر نہیں سمجھنا چاہیے۔ اے اہل بصیرت اس پر غور کرو۔

44

اے رفیق عرشی

بری بات نہ سن اور برا کام نہ دیکھ۔اپنے آپ کو ذلیل نہ کر اور گریہ و زاری نہ کر۔ کسی کو برُا نہ کہہ، تاکہ تو بھی برا نہ سنے اور لوگوں کے عیبوں کو بڑا نہ کر تاکہ تیرے عیب بھی بڑے دکھائی نہ دیں۔ کسی کی ذلت پسند نہ کر، تا کہ تیری ذلت ظاہرنہ ہو جائے۔ پس تو اپنے پاک ضمیر، پاکیزہ قلب ،پاکیزہ فکر اور پاکیزہ طبیعت رکھتے ہوئے اپنی تمام عمر میں جو ایک آن سے بھی کم شمار ہوتی ہے فارغ البال ہو کر رہ۔ تا کہ تو فراغت کے ساتھ اس جسم فانی سے فردوس معانی میں جا پہنچے، اور عالم بقا میں جائے قرار حاصل کرلے۔

45

افسوس افسوس اے نفسانی خواہشوں کے عاشقو

تم معشوق روحانی کے پاس سے بجلی کی مانند گزر گئے اور پورے طور پر دل کو شیطانی خیالات میں لگا رکھا ہے ۔ تم اپنے فرسودہ خیال کو سجدہ کر تے ہو اور اس کو حق قرار دیتے ہو۔تم ایک کانٹے پر نظریں جمائے ہوئے ہو اور اُسے پھول کہتے ہو۔ نہ تو تم نے کبھی پاکیزہ سانس لیا اور نہ ہی تمہارے قلوب کے باغیچہ سے انقطاع کی ہوا چلی۔ محبوب کی مشفقانہ نصیحتوں کو تم نے ہوا میں اڑا دیا ہے اور صفحۂ دل سے محو کر دیا ہے۔ اور جانوروں کی مانند خواہش و آرزو کے سبزہ زار میں عیش کر رہے ہو۔

46

اے برادرانِ طریق

تم اپنے محبوب کی یاد سے غافل ہو اور بارگاہ دوست کے مقدس قرب سے دور کیوںرہ گئے ہو؟ جوہرِ جمال خیمۂ بے مثال میں اپنے تختِ جلال پر جلوس فرما ہے جب کہ تم (نفسانی خواہش کے بموجب)بے کار جنگ و جدال میں لگے ہوئے ہو۔ عالم قدسی کی خوشبوئیں مہک رہی ہیں اور نسیم رحمت چل رہی ہیں لیکن تم سب لوگ ان سب نعمتوں سے محروم رہ گئے ہو۔ تمہارے حال پر حسرت و افسوس ہے اور اُن لوگوں پر بھی جو تمہارے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔

47

اے آرزوؤں کے فرزندو

غرور کا لباس اُتار دو اور خود کو تکبّر کی پوشاک سے آزاد کرلو۔

قدس کی سطروں میں سے تیسری سطر میں

جو لوح یا قوتی میں قلم خفی سے تحریر ہے یہ نازل ہو ا:

48

اے برادران

ایک دوسرے کے ساتھ تحّمل سے پیش آؤ۔ دنیا سے دل کو ہٹا لو۔ اپنی عزت پر فخر نہ کرو اور اپنی ذلت پر شرمندہ نہ ہو۔ مجھے اپنے جمال کی قسم ،میں نے سب کو مٹی سے پیدا کیا ہے اور یقینا پھر مٹی میں ملا دوں گا۔

49

اے فرزندان خاک

امیروں کو غریبوں کے نا لہ سحر گاہی سے آگاہ کردو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی غفلت کی وجہ سے ہلاکت میں جا پڑیں اور درختِ دولت سے محروم رہ جائیں۔ سخاوت و بخشش میری صفات ہیں۔ مبارک ہے وہ انسان جو میری صفات کے زیور سے خود کو آراستہ کر تا ہے۔

50

اے خواہش کے پُتلے

حرص و ہویٰ کو چھوڑ کر قناعت اختیار کرنے کی کوشش کر کیونکہ حریص ہمیشہ محروم اور قانع ہمیشہ محبوب و مقبول ہوتا ہے ۔

51

اے میری کنیز کے فرزند

غربت میں پریشان نہ ہو اور دولت مندی میںمطمئن نہ رہ کیونکہ ہر غربت کے بعد دولت اور ہر دولت کے بعدغربت آتی ہے۔ مگر ماسوا اللہ سے مفلس ہو جانا بہت بڑی نعمت ہے۔ اسے حقیر نہ سمجھ کیونکہ اس سے آخر کار تجھے غنا باللہ نصیب ہوگی اور تواس بیان کے مطالب سے آگاہ ہوجائے گاکہ ’’تم سب فقیر ہو‘‘ اور کلمہ مبارکہ ’’ خدا ہی غنی ہے ‘‘صبح صادق کی مانند عاشق کے افقِ دل پر نورانی چمک کے ساتھ نمودار ہوگا اور وہ تختِ غنا پر متمکن اور قائم رہے گا۔

52

اے فرزندان غفلت و ہوس

تم نے میرے دوست کو میرے گھر سے نکال کر اس میں دشمن کو داخل کر لیا ہے کیونکہ تم نے غیر کی محبت کو اپنے دل میں جگہ دی ہے۔ دوست کی باتوں پر کان لگاؤاور اس کی بہشت کا رُخ کرو۔ ظاہری دوست مصلحتاً ایک دوسرے کو دوست بناتے رہے اور بنا رہے ہیں لیکن تمہارا حقیقی دوست تمہارے فائدے کے لئے تم سے محبت کرتا تھا اور کرتا ہے بلکہ خاص تمہاری ہدایت کے لئے اس نے بے شمار مصیبتیں برداشت کی ہیں۔ ایسے دوست پر ظلم نہ کرو بلکہ فوراًـ اس کے پاس جاوُ۔ یہ ہے آفتاب کلمہ ’’صدق و وفا‘‘ کا جو مالک اسماء کی اُنگلیوں کے اُفق سے چمکا ہے۔ غالب اور ہمیشہ رہنے والے خدا کا کلام سننے کے لئے اپنے کان کھو لو۔

53

اے فانی دولت پر غرور کرنے والو

جان لو کہ در حقیقت غنا، طالب و مطلوب اور عاشق و معشوق کے درمیان ایک مضبوط دیوار ہے۔ سوائے چند دولت مند وں کے کوئی دولت مندنہ تو اس کے بارگاہ قُرب میں جگہ پا سکا اور نہ ہی اس کی تسلیم و رضا کے شہر میں داخل ہوسکا۔ پس خوب ہے اس دولت مند کا حال جس کو دولت ابدی بادشاہت سے نہ روک سکے اور لازوال سلطنت سے محروم نہ کر سکے۔ اسم اعظم کی قسم اس دولت مند کا نور اہل آسمان کو اس طرح منوّر کرے گا جس طرح آفتاب زمین پر بسنے والوں کو روشن کرتا ہے۔

54

اے زمین کے دولت مندو

غریب تمہارے درمیان میری امانت ہیں ۔پس میری امانت کی خوب حفاظت کرو اور فقط اپنے ہی نفس کو آرام پہنچانے میں مشغول نہ رہو۔

55

اے فرزندہوس

دولت کی آلودگی سے خود کو پاک کر اور کامل اطمینان کے ساتھ فقر کے آسمانوں میںقدم بڑھا تاکہ تو انقطاع کے چشمہ سے دائمی بقا کی شراب پئیے۔

56

اے میرے فرزند

شریروں کی صحبت رنج بڑھاتی ہے جبکہ نیکوں کی رفاقت دل کے زنگ کو صاف کرتی ہے۔ پس جو شخص خدا سے رازو نیاز کرنا چاہتا ہے اُس کو چاہئے کہ خدا کے دوستوں سے محبت کرے اور جو شخص خدا کا کلام سننا چاہتا ہے اُس کو چاہئے کہ وہ خدا کے اصفیاء کی باتیں سنے۔

57

خبردار اے فرزندخاک

شریر لوگوں سے محبت نہ کر اور ان کا ساتھ نہ ڈھونڈکیونکہ شریروں کی صحبت رُوح کے نور کو دوزخ کی آگ میں تبدیل کردیتی ہے ۔

58

اے میری کنیز کے بیٹے

اگر تو روح القدس کا فیض چاہتا ہے تو نیک شخص کی صحبت اختیار کر ۔ کیونکہ اس نے سَاقیٔ خُلد کے ہاتھ سے ساغر بقا پیا ہے۔ اور وہ مُردہ دلوں کو صبحِ صادق کی مانند زندہ، روشن و منوّر کردیتا ہے۔

59

اے غافلو

یہ خیال نہ کرو کہ تمہارے دل کے بھید پوشیدہ ہیں بلکہ یقین کے ساتھ جان لو کہ وہ جلی حروف میں کَندہ ہیں اور میری بارگاہ میں ظاہر وآشکار ہیں۔

60

اے دوستو

میں سچ کہتا ہوں کہ جو کچھ تم نے اپنے دلوں میں چھُپا رکھاہے وہ ہمارے سامنے روزِ روشن کی طرح ظاہر و ہویدا ہے لیکن اس کی پردہ پوشی کا سبب ہمارا فضل وکرم ہے نہ کہ تمہارا استحقاق۔

61

اے فرزند انسان

اپنی رحمت کے بے پایاں سمندر کا ایک قطرہ میں نے دنیا والوں پر ڈالا لیکن کسی کو متوجہ نہ پایا کیونکہ سب لوگ توحید کی لطیف اور لازوال شراب کو چھوڑ کر شرابِ انگوری کے ناپاک پانی کی طرف متوجہ ہیں۔ اور غیر فانی حُسن کے ساغر کو چھوڑ کر جام فانی سے مطمئن ہوگئے ہیں۔ کس قدر بری ہے وہ چیز جس پراس نے قناعت کر لی ہے۔

62

اے فرزند خاک

محبوب لایزال کی بے مثال شراب سے بے رخی نہ کر اور فانی اور گندی شراب کی طرف توجہ نہ کر۔ ساقی احدیت کے ہاتھوں سے حیات ابدی کا جام لے تاکہ تو سراپا حکمت ہوجائے اور فرشتۂ غیب کا رُوحانی نغمہ سن سکے۔ کہدے اے پست فطرت لوگو تم میری مقدس و ابدی شراب چھوڑ کر آب فانی کی طرف کیوں متوجہ ہوگئے ہو؟

63

کہہ دے اے اہل زمین

اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ ایک بلائے ناگہانی تمہارے پیچھے لگی ہوئی ہے اور ایک بڑا عذاب تمہارا منتظر ہے۔ یہ خیال نہ کرو کہ جو کچھ تم نے کیا ہے میری نظر سے محو ہو گیا ہے۔نہیں اپنے جمال کی قسم تمہارے سب اعمال سبز یاقوطی الواح میں جلی قلم سے لکھ دیئے گئے ہیں۔

64

اے ظالمانِ ارض

ظلم سے اپنے ہاتھ کھینچ لو کیونکہ میں نے قسم کھائی ہے کہ کسی کا ظلم معاف نہیں کروں گا۔یہ میرا لا تبدیل عہد ہے جس کو میں نے لوحِ محفوظ میں لکھ کر اور اس پر اپنی عزت کی مُہرثبت کردی ہے ۔

65

اے گنہگارو

میرے تحمل نے تمہیں دلیر کر دیا ہے اور میرے صبر نے تمہیں اتناغافل بنا دیا ہے کہ تم اپنے بے باک نفس کے آتشیں گھوڑوں پر سوار ہو کر مہلک اور خطرناک راستوں پربے خطر دوڑے چلے جاتے ہو۔ کیا تم نے مجھے غافل یا بے خبر سمجھ لیا ہے؟

66

اے مہاجرین

میں نے زبان اپنے ذکر کے لئے بنائی ہے، اس کو غیبت سے آلودہ نہ کرو اور اگر نفسِ ناری تم پر غلبہ کرے تو تم اپنے عیبوں کی یاد میں مشغول ہوجاؤ، نہ کہ میری مخلوق کی غیبت میں، کیونکہ تم میں سے ہر شخص بہ نسبت دوسرے بندوں کے اپنے آپ سے زیادہ واقف و باخبر ہے۔

67

اے فرزندان وہم

یقین سے جان لو کہ جب قدس صمدانی کے افق سے صبح نورانی نمودار ہوگی، تو اندھیری رات میں کئے گئے پوشیدہ اعمالِ شیطانی لوگوں پر ظاہرو آشکار ہو جائیں گے۔

68

اے گیاہ خاک

کیا وجہ ہے کہ تو ان ہاتھوں کو جو شکر سے آلودہ ہوتے ہیں اپنے کپڑوں کو نہیں لگاتا مگر ایسے دل کے ساتھ جو ہواو ہوس کی گندگی سے بھرا ہوا ہے توکیوں میرے ساتھ رہنے کا خواہشمند ہے اور میرے مما لک ِقُدس میں داخل ہونا چاہتا ہے؟افسوس افسوس اس پر جو تم چاہتے ہو

69

اے فرزندان آدم

صرف مقدس کلام اور پاک و پاکیزہ اعمال ہی احدیت کے پر جلال آسمان پر جاتے ہیں۔ کوشش کرو کہ تمہارے اعمال ریا و کدُورت کی دھول اور نفس و ہویٰ کے میل سے پاک ہوں، تاکہ وہ بارگاہ عزّت میں قبول ہوں کیونکہ عنقریب انسانی وجود کو پَرکھنے والے معبو دِ حقیقی کی بارگاہ میں خالص تقویٰ اور مقدس اعمال کے سوا کوئی چیز قبول نہ کریں گے۔ یہ ہے حکمت و معانی کا آفتاب جو دہنِ مشیتِ ربّانی کے افق سے طلوع ہوا ہے۔مبارک ہو ان کو جو اس کی طرف متوجہ ہوئے۔

70

اے فرزند عیش

بہت خوب ہے عالم وجود اگر تو اس میں داخل ہو جائے اور مُلک بقاِ بہت ہی عمدہ جگہ ہے بشرطیکہ تو ملک فنا سے نکل آئے اور مستی کا سُرور پُر لُطف ہے، تو معانی کا ساغر اس غلام الہی کے ہاتھوں سے پی۔ اگر تو یہ مرتبہ حاصل کر لے تو تباہی و فنا اور محنت و خطا سے آزاد ہو جائے گا۔

71

اے میرے دوستو

تم اس عہد کو یاد کرو جو تم نے رماّ ن کی مبارک سرزمین پر واقع جبل فاران پر میرے ساتھ باندھا تھا اور عالی مرتبہ لوگوں اور بقا کے شہروں میں بسنے والوں کو اُس عہد پر گواہ بنایا تھا۔ لیکن اب میں اس عہد پر کسی کو قائم نہیں دیکھتا۔ یقینا غرور اور نافرمانی نے اس عہد کو تمہارے دلوں سے اسطرح مٹا دیا ہے کہ اس کا نشان تک باقی نہ رہا لیکن میں نے دانستہ صبر کیا اور اس بات کو ظاہر نہیں کیا۔

72

اے میرے بندے

تیری مثال ایسی تیزدھار تلوار کی سی ہے جو مَیلے غلاف میں چھپی رہتی ہے اور جوہریوں سے اس کی قدر و قیمت پوشیدہ رہتی ہے۔ پس تو نفس و ہویٰ کے غلاف سے نکل آ، تاکہ تیری اہمیت اہل عالم پر روشن اور تابان ہو جائے۔

73

اے میرے دوست

تومیرے مقدس آسمانوں کا آفتاب ہے۔اپنی تابانی کودنیاوی آلودگیوں کا گہن لگنے سے بچا۔ غفلت کے پردہ کو پھاڑ دے تاکہ تو بادلوں سے بے نقاب نکل آئے اور تمام موجودات کو خلعتِ ہستی سے آراستہ کر دے ۔

74

اے فرزندان غرور

دنیا کی چند روزہ سلطنت کی خاطر تم نے میری جبروتِ بقا کو چھوڑدیا اور اپنے آپ کو دنیاوی رنگینیون سے سجاتے ہو اور اُس پر فخر کرتے ہو۔اپنے جمال کی قسم میں سب کو خاک کے خیمۂ یک رنگ میں لے آؤں گا اور ان مختلف رنگوں کو مٹا دوں گا سوائے ان لوگوں کے جو میرا رنگ اختیار کریں گے جو تمام رنگوں سے پاک و مقدّس ہے۔

75

اے فرزندان غفلت

فانی سلطنت سے دل نہ لگاؤ اور اس پر خوش نہ ہو ۔تمہاری مثال اس غافل پرندہ کی سی ہے جو کسی باغ میں ایک شاخ پر بیٹھا ہو انہایت اطمینان سے نغمہ سرائی کررہا ہو کہ دفعتاً صیادِ اجل اُسے خاک پر گرا دے اورپھر نہ تو اسکی نغمہ سرائی باقی رہتی ہے اور نہ ہی اس کے جسم اور رنگ کا کوئی نشان۔ پس اے نفس وہوٰی کے بندو نصیحت حاصل کرو۔

76

اے میری کنیز کے فرزند

ہدایت ہمیشہ اقوال سے ہوتی رہی ہے مگر اس زمانے میں اعمال سے ہونی مقدر ہوئی ہے ۔ہر شخص کو چاہئے کہ اس کے وجود سے تمام پاک و پاکیزہ اعمال ظاہر ہوں کیونکہ اقوال میں سب شریک ہیں لیکن مقّدس اور پاک اعمال ہمارے دوستوں کیلئے مخصوص ہیں ۔پس جان و دل سے کوشش کرو تاکہ تم اعمال میں تمام لوگوں سے ممتاز ہوجاؤ۔ ہم نے مقّدس اور روشن لوح میں تمہیں اسی طرح نصیحت کی ۔

77

اے فرزندان انصاف

رات کے وقت لا فانی ہستی کا جمال زمرًدی وفا کی بلندیوں سے سدرۃ المنتہٗی کی طرف لوٹ گیا اور ایسی گریہ و زاری کی کہ تمام آسمانی گروہ اور عالم بالا کے رہنے والوں نے اس کی گریہ و زاری پر نالہ کیا جب پوچھا گیا کہ یہ گریہ و زاری کس لئے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں حکم کے مطابق کوہ وفا پر منتظر رہا لیکن زمین والوں میں بوئے وفانہ پائی اور میں نے واپسی کا ارادہ کیا ہی تھا کہ چند مقدس کبوتروں کو دنیا کے کتّوں کے پنجوں میں تڑپتے دیکھا۔ اس وقت خدائی حور قصر روحانی سے بے نقاب دوڑتی ہوئی آئی اور ان کے نام پوچھے۔ سب نام بتا دیئے مگر ایک نام نہیں بتایا۔جب اِصرار ہوا تو زبان سے نام کا پہلا حرف نکلا۔ اس پر جنت کے حجروں میں رہنے والے اپنے اپنے مقام عظمت سے نکل آئے اور جب دوسرا حرف بیان ہوا تو سب کے سب خاک پر گر پڑے۔ اس وقت قرب الٰہی کے پوشیدہ مقام سے آواز آئی کہ اس سے زیادہ اظہار جائز نہیں۔ بے شک ہم ان کے گزشتہ اور موجودہ اعمال پر گواہ ہیں۔

78

اے میری کنیز کے فرزند

رحمن کی زبان سے معرفت کی سلسبیل پی لے اور کلام الہی کے مشرق سے میرے آفتاب بیان کے انوار کی تابانی مشاہدہ کر۔ میری حکمت لدّنی کے بیج اپنے دل کی پاک زمین پر بکھیر ۔اور یقین کے پانی سے سیراب کر،تاکہ قلب کے مقّدس شہر سے میرے علم و حکمت کی سر سبز کونپلیں نکل آئیں۔

79

اے فرزند ہویٰ

تو کب تک خواہش نفسانی کی ہوا میں اڑتا رہے گا؟ میں نے تجھے اِس لئے پرعنایت کئے تاکہ تو معرفت کی مقّدس ہوا میں پرواز کرشے نہ کہ شیطانی وہم کی فضا میں۔میں نے تجھے اپنے گیسوئے مشکیں سنوارنے کیلئے کنگھی دی تھی نہ کہ میرا گلا زخمی کرنے کیلئے

80

اے میرے بندو

تم میرے باغ کے درخت ہو ۔تمہیں چاہیےکہ نئے نئے اچھے پھل دو تا کہ تم خود اور دوسرے لوگ ان سے فائدہ اٹھائیں۔ لہذا سب پر واجب ہے کہ دست کاریوں اور پیشوںمیں مشغول ہوں ۔اے صاحبان عقل ثروت کے اسباب یہی ہیں اور بے شک امور، اسباب سے وابستہ ہیں اور خدا کا فضل تمہارے لئے کافی ہے۔ بے ثمر درخت جلانے کے قابل تھے اور رہیں گے ۔

81

اے میرے بندے

سب سے زیادہ پست لوگ وہ ہیں جو زمین پر بے ثمر موجود ہیں اور در حقیقت وہ مُردوں میں شمار ہوتے ہیں بلکہ خدا کے نزدیک ان بے کار اور ناکارہ لوگوں سے مردے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔

اے میرے بندے

82

سب سے بہتر ین وہ لوگ ہیں جو کسی پیشہ کے ذریعہ روزی حاصل کرتے ہیں اور محض خدائے ربّ العالمین کی محبت کے لئے اپنے آپ پر اور اپنے عزیزواقارب پرخرچ کرتے ہیں۔

روحانی معانی کی دلہن جو بیان کے پردوں میں پوشیدہ تھی اب عنایت الہی اور الطاف ربّانی سے جمالِ دوست کی روشن شعاع کی طرح ظاہر و ہویدا ہوگئی ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں اے دوستو کہ نعمت تمام اور حجت کامل، برہان ظاہر اور دلیل ثابت ہو گئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تمہاری ہمت و کوشش، راہ انقطاع کے مراتب کیسے طے کرتی ہے۔ اس طرح تم پر اور آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والوں پر نعمت پوری ہوگئی۔ سب تعریف خدا ہی کے لئے ہے، جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔

Bahá'u'lláh

Windows / Mac